وزیراعظم کا مستعفی ہونے سے انکار
اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تناظر میں مستعفی ہونے سے صاف انکار کردیا جبکہ وفاقی کابینہ نے ان کے اعلان کی توثیق بھی کر دی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دوران وفاقی کابینہ کو پاناما اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ الزامات، بہتان اور مفروضوں کا مجموعہ ہے۔
وزیراعظم نے استعفے کے مطالبہ کرنے والی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں ان تمام جماعتوں کے مجموعی ووٹوں سے زیادہ ووٹ لیے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سازشی ٹولے کے کہنے پر استعفی نہیں دیں گے، انہیں پاکستان کی عوام نے منتخب کیا ہے اور عوام ہی انہیں عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: استعفے کا زور پکڑتا مطالبہ: کابینہ، اتحادیوں کا ہنگامی اجلاس طلب
کابینہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ کسی کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے جس کے بعد کابینہ نے ان کے مستعفی نہ ہونے کے اعلان کی توثیق کرتے ہوئے قانونی جنگ لڑنے کا مشورہ دیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی میں جتنے بھی الزامات لگائے گئے ہیں وہ انکے خاندانی کاروبار سے متعلق ہیں اور ان کے خاندان نے سیاست میں آنے کے بعد کچھ نہیں کمایا بلکہ کھویا بہت کچھ ہے۔
انہوں نے دہرایا کہ ملک میں اربوں اور کھربوں کے منصوبے چلا رہے ہیں مگر کسی میں بھی کرپشن سامنے نہیں آئی، ’چار سالوں میں ہم نے تعمیر وترقی کا اتنا کام کیا ہے جتنا گزشتہ دو دہائیوں میں نہیں ہوا، پھر سے اندھیروں کو اپنی بستیوں اور کارخانوں میں داخل نہیں ہونے دیں گے‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ تعمیر وترقی کے سفر کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، پاکستان ماضی میں ان تماشوں کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے اب یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہیے، وزیر اعظم نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو تعصب اور بدنیتی پر مبنی بھی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ایس ای سی پی چیف کو ہٹانے کا فیصلہ نہیں کیا
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں جو زبان استعمال ہوئی اس سے بھی بدنیتی اور تعصب ظاہر ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ استعفے کے لیے بڑھتے ہوئے مسلسل دباؤ کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے پاناما پیپر کیس کے سلسلے میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال پر اپنے وزراء اور اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔
اس کے علاوہ وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایم ڈی سوئی ناردرن گیس کمپنی کی تعیناتی کے طریقہ کار کی منظوری دی گئی اور اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ کا نام تجویز کرنے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی، اس کمیٹی میں حاصل بزنجو، مریم اورنگزیب، عرفان صدیقی اور بیرسٹر ظفراللہ شامل ہیں۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ من گھڑت، ثناء اللہ
دوسری جانب لاہور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ (ن) لیگ نے جے آئی ٹی رپورٹ کو من گھرٹ قرار دے کر مسترد کردیا ہے جبکہ سپریم کورٹ سے استدعا کی جائے گی کہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکا جائے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ من گھرٹ جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرتے ہیں، کیونکہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے 13 سوالوں پر کام نہیں کیا، جے آئی ٹی نے کہیں جائے بغیر لندن آئی لنیڈ ور ژن سے ریکارڈ حاصل کیا اور متعدد مرتبہ ایسا ہوا خط بعد میں ملا ریکارڈ پہلے تیار تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پہلے دھرنے کی تمام تقریروں کا خلاصہ نکالا جائے تو جے آئی ٹی رپورٹ نکل آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف 1981 سے اب تک 36 سالوں کے دوران مختلف عہدوں پر فائز رہے، انہوں نے کھربوں کے پروجیکٹ کئے لیکن جے آئی ٹی طاقت کے باوجود ایک بے ضابطگی تلاش نہیں کر سکی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ جاوید ہاشمی کو طلب کیا جائے، ’جاوید ہاشمی کہتے ہی کہ نہ کوئی جج، نہ جرنیل اور نہ کوئی سیاستدان صادق اور امین ہے‘، میں جاوید ہاشمی کی بات کی تائید کرتا ہوں۔
ثناء اللہ کا کہنا تھا اگر نواز شریف صادق اور امین نہیں تو ملک میں کوئی بھی صادق اور امین نہیں، ملک کی تمام اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی نمائندوں نے گوشوارے جمع کروائے اور بیان حلفی دیئے کہ انتخابات پر دس لاکھ خرچ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور سپریم کورٹ جو فیصلے کریگی قبول کرینگے تاہم جے آئی ٹی رپورٹ کو پوری قوت سے چیلنچ کریں گے جبکہ سپریم کورٹ سے انصاف کی پوری امید ہے۔