پاکستان

ریمنڈ ڈیوس کے متاثرین کو خون بہا کس نے ادا کیا؟

خون بہا کی مد میں مقتولین کو ادا کی جانے والی رقم پاکستانی انتظامیہ نے عوامی خزانے سے ادا کی، درخواست گزار کا الزام

اسلام آباد: 2011 میں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں 2 افراد کے قتل کے بعد ان کے اہل خانہ کو خون بہا کی مد میں ادا کیے جانے والے 24 لاکھ ڈالر کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

درخواست گزار ایڈووکیٹ طارق اسد نے اپنی پٹیشن میں سوال کیا کہ کیا یہ رقم ریمنڈ ڈیوس نے ادا کی یا امریکی حکومت نے؟ یا اس کی ادائیگی کسی اور کی جانب سے کی گئی۔

درخواست گزار نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا، سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور سیکریٹری دفاع و داخلہ کو فریق نامزد کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں ریمنڈ ڈیوس کی حوالگی کی درخواست دائر

طارق اسد کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ خون بہا کی مد میں مقتولین کو ادا کی جانے والی رقم پاکستانی انتظامیہ نے عوامی خزانے سے ادا کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اس پٹیشن میں ریمنڈ ڈیوس کی حال ہی میں منظرعام پر آنے والی کتاب میں کیے گئے انکشافات کی بنیاد پر کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

ریمنڈ ڈیوس کو 'امریکی دہشت گرد' قرار دیتے ہوئے ایڈووکیٹ طارق اسد نے الزام عائد کیا کہ امریکی جاسوس نے لاہور کے قرطبہ چوک پر فائرنگ کرکے فیضان حیدر اور فہیم شمشاد نامی 2 افراد کو گولی مار کر قتل کیا جبکہ ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لیے آنے والے امریکی قونصل خانے کے ڈرائیور نے موٹرسائیکل سوار عباد الرحمٰن کو ٹکر مار کر ہلاک کردیا۔

درخواست گزار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ وفاقی حکومت اور دیگر فریقین نے 'مجرم کو بازیاب کرایا اور غیرقانونی طریقے سے مقتولین کے قانونی ورثاء کو خون بہا ادا کرکے ریمنڈ ڈیوس کی جان بچائی'۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 'صلح کے لیے کی جانے والی ڈیل کسی پر تھوپی نہیں جاتی '۔

مزید پڑھیں: لواحقین کو خون بہا لینے پر مجبور کیا گیا: ریمنڈ ڈیوس

طارق اسد کا کہنا تھا کہ اگر مقتولین کے قانونی ورثاء کی جانب سے قاتل کو معاف کردیا جائے تو خون بہا مجرم کو ادا کرنا ہوتا ہے لیکن ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں اپنی بازیابی میں پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف کے مبینہ کردار کا ذکر کیا۔

درخواست گزار نے کہا کہ کتاب میں شامل مواد سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا نے ابتدائی طور پر ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنیٰ حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم بعد میں مقتولین کے قانونی ورثاء کو خون بہا لینے پر مجبور کرکے اسے رہا کرایا گیا۔

طارق اسد کے مطابق اپنی کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے الزام عائد کیا کہ لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا، سابق سی آئی اے ڈائریکٹر لیون پنیٹا، پاکستان کی سیاسی قیادت اور عدلیہ نے ان کی بریت نے مدد کی۔

درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے تسلیم کیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس جاسوسی کے مشن پر آیا ہوا سی آئی اے کا کارندہ تھا اور نجی سیکیورٹی فرم ژی سروسز یا بلیک واٹر کے لیے کام کررہا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی حکام نے میری رہائی کیلئے قانون کا مذاق بنادیا:ریمنڈ ڈیوس

پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کا پاکستان میں داخلہ اور قتل خارجہ پالیسی کی وجہ سے ممکن ہوا جو پاکستان کی سلامتی، استحکام اور سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے جبکہ اس دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بغیر 3 ہزار ویزوں کا اجرا اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی بڑی تعمیر کی اجازت بھی دی گئی۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ 'اُس وقت کے صدر آصف زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ رحمٰن ملک اس سب کے ذمہ دار ہیں'۔

طارق اسد نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کیس کا تمام ریکارڈ طلب کرے اور اس بات کا پتہ لگائیں کہ خون بہا کی ادائیگی سمیت دیگر اخراجات کس نے برداشت کیے، مزید براں اس غیر قانونی عمل کے ذمہ دار افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ متعلقہ اداروں کو رحمٰن ملک اور دیگر ذمہ داران کے خلاف ایکشن لینے کی ہدایت دیں جو امریکی کنٹریکٹرز کو بغیر کلیئرنس ویزا جاری کرتے ہیں۔


یہ خبر 13 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔