لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
کسی زیر اقتدار وزیر اعظم کے لیے اب سے زیادہ بدتر الزامات اور کیا ہوں گے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ نے شریف خاندان پر جھوٹے بیانات اور جعلی دستاویزات سے لے کر اپنی ذرائع آمدنی اور مالی وسائل چھپانے اور اپنے وسائل سے بڑھ کر طرز زندگی گزارنے تک کئی الزامات عائد کیے ہیں۔
متوقع طور پر، نواز شریف جھکنے کو تیار نظر نہیں آتے اور آخری دم تک لڑنے کے لیے پر عزم ہیں۔ اب یہ تو سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ ان کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتی ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ اس کیس کو ختم ہونے میں ابھی اور کتنا وقت لگے گا۔ لیکن یہ بات تو یقینی ہے کہ اس کا انجام کافی مشکلوں سے بھرپور ہوگا. ممکن ہے کہ تیسری بار وزیر اعظم بننے والے کو عدالت اقتدار سے ہٹا کر ان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلائے۔ ملک میں جنم لینے والی قانونی کشمکش شاید کافی عرصہ اور چلے جو ملک میں موجود سیاسی تقسیم کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بھی بنے گی۔ اس تاریخی عدالتی کارروائی کا نتیجہ سیاسی منظرنامے کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دے گا اور ہوسکتا ہے کہ یہ شریف دور کے اختتام کی شروعات بھی ہو۔
پڑھیے: وزیرِ اعظم صاحب، عہدہ چھوڑ دیں
نواز شریف کو دوسرا جھٹکا یہ لگا ہے کہ جے آئی ٹی نے ان کی بیٹی مریم نواز، جو بظاہر کافی عرصے سے ان کی جانشین کے طور پر نظر آ رہی ہیں، پر جھوٹی دستاویزات جمع کروانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یوں اقتدار کو دوسری نسل میں منتقل کرنے کا شریف خاندان کا منصوبہ بھی ناکام ہو گیا ہو۔ یہ تو ظاہر نظر آ رہا ہے کہ شریف خاندان کے بیرونی اثاثوں پر ایسی مفصل تحقیقات نے خود وزیر اعظم کو اچنبھے میں ڈال دیا ہے۔
اگرچہ حکومت بالآخر تحقیقات کی سنجیدگی بھانپ چکی ہے مگر پھر بھی پراعتماد دکھائی دیتی ہے کہ وزیر اعظم اس مشکل صورتحال سے جیسے تیسے نکل ہی آئیں گے۔ 10 جولائی کو جے آئی ٹی رپورٹ کی سپریم کورٹ کو سپردگی سے چند گھنٹے قبل ایک قومی اخبار نے خبر شائع کی، جس کی شہہ سرخی تھی کہ تحقیقات میں وزیر اعظم مجرم قرار نہیں پائے گئے، دراصل انہوں نے حکومت کے غلط اندازوں کو پیش کیا تھا۔ حکومت قطعی طور پر اس قدر سنجیدہ الزامات کی توقع نہیں کر رہی تھی، جن کی وجہ سے ملک کے سب سے طاقتور سیاسی رہنما کو سیاسی اور اخلاقی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے ممبران، جن میں کئی ممبران کے پاس وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں تھا، پر مشتمل ایک چھوٹی ٹیم کا قریب تین دہائیوں میں ہونے والے پیچیدہ مالی معاہدوں کی صرف 60 دنوں میں ایسی جامع تحقیقات کرنا کافی متاثر کن ہے۔ حکومت کے ماتحت مالی اداروں سے موجودہ وزیر اعظم کے خلاف معلومات جمع کرنا اور ان کی تصدیق کرنا، وہ بھی ایسے ملک میں جہاں امیر اور طاقتور قانون سے بری ہو جاتے ہیں، ہر لحاظ سے ایک نہایت ہی کٹھن کام ہے۔
یقیناً ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی سرپرستی نے بھی ایک اہم کردار کیا ہوگا۔ مگر اس قسم کی تحقیقات فوجی انٹیلیجنس اداروں کے جے آئی ٹی میں شامل نمائندوں کے اثر کے بغیر ممکن نہ ہو پاتیں۔ قابل فہم طور پر ان کی شمولیت نے کئی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سازشی نظریات بھی پیش کیے جانے لگے کہ پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کے پیچھے فوجی اسٹیبلشمنٹ سرگرم ہو کر کام کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ ایف آئی اے شریف خاندان کی کمپنیوں کے ریکارڈز میں ہیرا پھیری کرنے پر پاکستان کے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین کو پکڑنے کی بھی جرات پیدا کر سکی۔
پڑھیے: نواز شریف استعفیٰ دیں یا انتظار کریں؟ تجزیہ کار کیا کہتے ہیں
ہمارے تحقیقاتی اداروں کی اہلیت اور مہارت کے پست معیار کو دیکھیں تو جس طرح جے آئی ٹی کا ایک بڑا حصہ شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کے ذریعے پیسوں کی برسوں تک بیرون ملک منتقلی کے حوالے سے تحقیقات میں مصروف عمل رہا وہ واقعی ایک غیر معمولی بات ہے۔ یقیناً، اس معاملے پر قریب دو دہائیوں قبل ایف آئی اے کی تحقیقات نے چند اہم سراغ فراہم کیے مگر جے آئی ٹی کی تحقیقات تمام اہم نکات کو چند ٹھوس شواہد کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
یہ کام باہمی قانونی تعاون کے معاہدے کے تحت چند ممالک، بشمول برطانیہ اور متحدہ عرب امارات، کے مؤثر تعاون کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا۔ جس کے تحت تحقیق کاروں کو اہم معلومات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملی جس نے یہ ثابت کیا کہ آف شور کمپنیاں مریم نواز کی ملکیت ہیں، حالانکہ شریف خاندان بارہا اس بات کی تردید کر چکا ہے۔
بلاشبہ، آف شور کمپنیوں، غیر ملکی بینکوں، اور شریف خاندان کے درمیان رابطوں کے ریکارڈ کی مدد سے اہم نکات حاصل ہوئے ہیں۔ اس تعاون کی تفصیلات بظاہر جے آئی ٹی رپورٹ کے دسویں والیوم میں درج ہیں جسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی نے دستاویزات کے اصلی یا نقلی ہونے کی فارینسک تصدیق کے لیے چند غیر ملکی تحقیقاتی اداروں کی خدمات بھی حاصل کیں۔ ایسی ماہرانہ سہولت ہمارے وطن میں میسر ہی نہ تھی۔
جے آئی ٹی کے ٹھوس شواہد کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے لیے اس مشکل صورتحال سے نکلنا کافی مشکل ہوگا۔ شاید وہ یہ امید باندھے بیٹھے ہوں کہ ایک طویل قانونی اور سیاسی جنگ سے صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا رضا کارانہ طور پر اقتدار سے دستبرداری کا کوئی اندیشہ نہیں، جس وجہ سے ملک کے اندر سیاسی غیر یقینی بھی بڑھ گئی ہے۔
پڑھیے: وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے فیصلے کی گھڑی
سو پاناما پیپرز کی وجہ سے شروع ہونے والے اس بحران کو ایک برس گزر جانے کے بعد بھی اس کے جلد اختتام کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ اگر حکومت معاملے کی پارلیمانی تحقیقات کرنے پر راضی ہو جاتی تو یہ معاملہ کب کا حل ہو گیا ہوتا۔ ان کے غرور و تکبر کی وجہ سے بالآخر اعلیٰ عدالت کو مداخلت کرنی پڑی۔
رواں سال اپریل میں پانچ رکنی بینچ کے حکم نامے کے بعد سے نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ بیچ میں اٹکا ہوا ہے۔ اگرچہ وہ نااہل ہوتے ہوتے بچ گئے تھے مگر جے آئی ٹی کی تشکیل نے واضح کر دیا کہ ان پر سے خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ دلچسپ طور پر، کئی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے دائر کردہ پٹیشنز سے بھی بڑھ کر جے آئی ٹی کو تحقیقات کے اختیارات دیے گئے۔
اگرچہ وہ نافرمان ثابت ہو رہے ہیں، مگر نواز شریف کے پاس اب آپشنز بھی بہت کم بچے ہیں۔ وہ عدالت کے حکم سنانے تک وزیر اعظم کے عہدے پر تو فائز رہ سکتے ہیں مگر وہ سیاسی اور اخلاقی اختیار بہت پہلے ہی گنوا چکے ہیں۔ کسی قسم کا تنازع نہ صرف حکومت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا بلکہ یہ سیاسی عمل کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ سنگین داخلی اور خارجی مسائل سے نبردآزما ہمارا ملک سیاسی عدم اعتماد اور عدم استحکام کی بگڑتی صورتحال اب مزید برداشت نہیں کر سکتا۔
مسلم لیگ ن ایک نیا رہنما چن کر اب بھی اپنا اقتدار قائم رکھ سکتی ہے اور اپنے پانچ سال مکمل کر سکتی ہے جبکہ چند ماہ دور اگلے انتخابات کی تیاری شروع کر دے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے سیاسی عدم اعتماد کی فضا ختم کی جاسکتی ہے۔
جمہوریت ذاتی طاقت کا نام نہیں ہے بلکہ سب سے زیادہ اہم جمہوری عمل کا تسلسل قائم رکھنا ہے۔ ایک داغدار رہنما ملک میں نہ تو استحکام پیدا کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنی پارٹی کو انتخابات میں کامیابی دلوا سکتا ہے۔ فیصلے میں تاخیر سے وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے اقتدار میں لوٹنے کے مواقع کھو دیں گے۔ وزیر اعظم کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اب ایک بند گلی میں کھڑے ہیں۔
یہ مضمون 12 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔