پاکستان

وزیراعظم کا منصب اور شہباز شریف کی احتیاط

افواہیں گردش کررہی ہیں کہ نواز شریف کونااہل قراردیئے جانےکی صورت میں شہبازشریف ممکنہ طور پر ان کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔

لاہور: مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے سپریم کورٹ میں پاناما کیس میں پیش کی گئی حتمی رپورٹ کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف توجہ کا مرکز تھے۔

بظاہر جے آئی ٹی رپورٹ میں لگنے والے الزامات سے راہ فرار حاصل کرنے والے شہباز شریف کے حوالے سے میڈیا میں موجود تجزیہ کاروں اور مخالفین کی جانب سے اس طرح کی تنقید سامنے نہیں آرہی جس قسم کی تنقید شریف خاندان کے دیگر ارکان پر کی جارہی ہے اور پاناما پیپرز کیس میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف عدالتی فیصلہ سامنے آنے کی صورت میں شہباز شریف خاندان کے ’ایک اہم کردار‘ کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔

ایک لیگی رہنما کے مطابق ’شہباز شریف بہت احتیاط سے کام لے رہے ہیں، وہ اس جاری بحران میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسی وقت میں وہ ان سے بھی رابطے میں ہیں، جو معاملہ ساز ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کی صورت میں شہباز شریف ان کی جگہ لے سکتے ہیں، اور نواز شریف اپنے بھائی کی جانب سے مرکز میں عہدہ حاصل کرنے کی صورت میں ان کی جگہ وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ شہباز شریف کسی بھی صورت میں پنجاب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے، چاہے انہیں مرکز میں اہم عہدہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے، لیکن ظاہر ہے کہ اپنے بیٹے حمزہ شہباز کے ذریعے انہیں پنجاب کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) کی قیادت شہباز شریف پر اندھا اعتماد کرتی ہے اور کیا وزیراعظم کی غیر موجودگی میں وہ انہیں اجازت دے گی کہ مرکز میں اپنا کردار ادا کریں یا پارٹی کے کسی اور رہنما کو (2018 میں ہونے والے عام اتنخابات تک وزیراعظم کا عہدہ دے دیا جائے گا) یا کسی اور چیز کے انتخاب کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے‘۔

غیر متوقع طور پر وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں نے وزیراعظم کے دفاع میں اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں کو کئی مواقع پر چیلنج کیا ہے، اور اس حوالے سے ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں، تاہم پاناما پیپرز میں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سے شہباز شریف نے اپنے بھائی اور ان کے بچوں کے دفاع میں انتہائی احتیاط سے کام لیا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر شہباز اور حمزہ دونوں ہی ان کے ساتھ اسلام آباد میں موجود تھے تاہم حسین، حسن اور مریم نواز کی پیشی کے موقع پر نہ ہی حمزہ اور نہ ہی ان کے والد نواز شریف کے بچوں کے ساتھ تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے اسے سیاسی مصلحت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ آئندہ دنوں میں جے آئی ٹی کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں پر الزامات لگائے جانے کی صورت میں براہ راست ان کا دفاع نہ کرسکیں‘۔

ادھر پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے مستعفی ہونے کے تاثر کو یکسر مسترد کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات میں بھی کوئی سچائی نہیں کہ شہباز شریف اپنے بھائی کا کھلے عام دفاع نہیں کررہے، شریف خاندان کیس کو دیکھ رہا ہے اور وہ کامیابی حاصل کریں گے‘۔

مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان کسی بھی قسم کے اختلافات کو یکسر مسترد کیا ہے، ایسی بہت سی بغاوت کی افواہیں سامنے آئی ہیں کہ شریف خاندان کی جانب سے موجودہ قیادت کی تبدیلی کے امکان پر اختلافات موجود ہیں، تاہم قیاس آرائیاں جاری ہیں اور جے آئی ٹی کے حالیہ الزامات کے بعد یہ غیر واضح ہے۔


یہ رپورٹ 12 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی