جے آئی ٹی کے ارکان نے کمرہ عدالت میں ثبوتوں کے دو باکس بھی پیش کیے — فوٹو: ڈان نیوز
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جس وقت جے آئی ٹی کے ارکان سپریم کورٹ پہنچے تو ان کے ساتھ دو باکسز میں 11 جلدوں پر مشتمل ثبوت بھی کمرہ عدالت میں لے جائے گئے جن پر لفظ ’ثبوت‘ تحریر تھا۔
فوٹو لیک کا معاملہ
جے آئی ٹی رپورٹ سے قبل وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی فوٹو لیک کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے حکومت کو اس میں ملوث شخص کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی۔
تصویر لیکس کے معاملے پر عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ اگر وہ چاہے تو ذمہ دار کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے، اس کے علاوہ حکومت تصویر لیک کے معاملے پر کمیشن بنانا چاہے تو بنا سکتی ہے، کیونکہ کمیشن بنانے کا معاملہ عدالت کے دائر اختیار میں نہیں آتا۔
اس موقع پر عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تصویر لیک کےذمہ دار کا نام منظر عام پر لایا جائے۔
تاہم عدالت نے ساتھ ہی واضح بھی کیا کہ 'ہمارے خیال میں تصویر لیکس کے معاملے پر کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے کہنے کے باجود پر حکومت نے ذمہ دار کا نام ظاہر کرنے میں دلچسپی نہیں لی'۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نام منظر عام پر لانے پر وفاق کو کوئی اعتراض نہیں۔
ایس ای سی پی چیئرمین کے خلاف مقدمے کا حکم
بعد ازاں جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کال اور ریکارڈ ٹیمپرنگ کا کیا ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے چیئرمین ایس ای سی پی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف آج ہی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور یہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ کس کے کہنے پر ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم جاری کردیا۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے فوجداری مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔
جنگ گروپ کو توہین عدالت کا نوٹس
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے غلط رپورٹنگ کرنے پر جنگ گروپ کے پبلشر، ایڈیٹر اور پرنٹر کے نام طلب کرتے ہوئے جنگ گروپ، رپورٹر احمد نورانی اور میر جاوید الرحمٰن کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کردی۔
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے معاملات دیکھنے کی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ جس نے اسٹوری فائل کی وہ چھپ کر بیٹھا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے سیاسی مشیر آصف کرمانی اور دیگر لیگی رہنماؤں طلال چوہدری اور سعد رفیق کی جانب سے کی جانے والی تقاریر کا متن طلب کرتے ہوئے کہا کہ تقاریر میں جے آئی ٹی کو دباؤ میں لانے کے ساتھ عدالت کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔
عدالت نے جے آئی ٹی ممبران کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اٹارنی جنرل کو حکم جاری کرتے ہوئے پاناما کیس کی سماعت آئندہ پیر (17 جولائی) تک لیے ملتوی کردی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جے آئی ٹی کے تمام ممبران کے دفاتر اور گھروں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔
عدالت عظمیٰ نے فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر حاضر ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ مکمل طور پر پڑھ کر آئیں اور اپنے دلائل کو دہرایا نہ جائے۔
فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو قیامت نہیں آئے گی، امیر جماعت اسلامی
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ پاناما اسکینڈل ایک ہوائی فائرنگ ثابت نہیں ہوگا، ہم آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ احتساب کا نعرہ لگانے کا مطلب یہ نہیں کہ جمہویت خطرے میں پڑ جائے گی، اگر یہ فیصلہ حکومت کے خلاف بھی آیا تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاناما کیس سے عوام میں انصاف کی امید جاگی ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ بااثر افراد نے عدالتوں کو مفلوج کیا ہے، حکومت نے اشتہارات کو بھی رشوت کے طور پر استعمال کیا۔
ٹیمپرنگ اسحٰق ڈار کے کہنے پر کی گئی، فواد چوہدری
پاناما کیس کی سماعت کے بعد رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فواد چوہدری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ایس ای سی پی کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ اسحاق ڈار کے کہنے پر کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین ظفر حجازی کو جلد از جلد ذمہ داروں کے نام بتانے چاہئیں۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ 'وزیر اعظم پاپا ہیں یا پاپی ایک ہفتے میں فیصلہ ہوجائے گا'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہیکنگ کا فائدہ حسین نواز کو پہنچا، آج توہین عدالت کے نوٹس جاری ہوئے ہیں جبکہ عدالت نے تمام میڈیا گروپ کو سرکاری اشتہارات کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔
پاناما جے آئی ٹی کی تحقیقات
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 60 روز کا وقت دیا تھا تاہم گذشتہ ماہ عدالت عظمٰی نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے کہا تھا کہ وہ اپنی حتمی رپورٹ 10 جولائی کو عدالت میں جمع کرائے۔
مزید پڑھیں: جے آئی ٹی رپورٹ وزیر اعظم کی قسمت کا فیصلہ نہیں: قانونی ماہرین
یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔
اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔
جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔
گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی ہدایت پر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی جانے والی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کو ریکارڈ ٹیمپرنگ میں ملوث قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی تجویز دی تھی۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق ایس ای سی پی کے چیئر مین ظفر حجازی ریکارڈ کے ردو بدل میں ملوث پائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'ہمارا قصور کیا ہے'؟ حسن نواز کا جے آئی ٹی سے سوال
ایف آئی اے نے یہ تحقیقات سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی درخواست پر جاری حکم کے بعد شروع کی تھیں جس میں جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ کچھ سرکاری ادارے متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کر رہے جبکہ کچھ ریکارڈ میں ردوبدل بھی کیا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے 5 جولائی کو وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
مریم نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے تقریبا 2 گھنٹے پیشی کے بعد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج وہ قرض بھی اتار دیئے جو واجب نہیں تھے، میں جے آئی ٹی کے تمام سوالوں کے جواب دے آئی ہوں۔
مریم نواز نے کہا کہ مخالفین بیٹی کا نام استعمال کرکے باپ کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں، جن کو بیٹیوں کی قدر نہ ہو، وہ یہ باتیں کبھی نہیں سمجھ سکتے، مجھے یہاں اس لیے بلایا گیا ہے کہ ’وزیراعظم کی بیٹی کو بلا کر ان پر دباؤ ڈالا جائے‘۔
مزید پڑھیں: 'حکمران جماعت ہر پیشی کا سامنا کرنے کو تیار'
اس سے قبل جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیراعظم کے دونوں صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز، داماد کپٹن صفدر اور وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک، نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر سعید احمد، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین ظفر الحق حجازی اور پرویز مشرف دور میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ رہنے والے ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل امجد نقوی بھی پیش ہوچکے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز 6 مرتبہ جب کہ چھوٹے صاحبزادے حسن نواز 3 مرتبہ 'جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔
4 جولائی کو چھٹی پیشی کے موقع پر ساڑھے 5 گھنٹے طویل پوچھ گچھ کے بعد فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حسین نواز کا کہنا تھا کہ 'ہمیں بلا کر جتنی مرتبہ سوالات کیے گئے، ہم نے جوابات دیے، لیکن سچائی یہ ہے کہ جو سوالات کیے گئے وہ 2 پیشیوں کے تھے، 6 مرتبہ پیش ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کے احترام میں ہم یہاں آتے رہے'۔
پاناما انکشاف
پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔
پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ
ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔