ریاست میں ’صوفی ازم‘ کی ملاوٹ کس نے اور کب شروع کی؟
کیتھرین پریٹ ایونگ، شمالی کیرولینا کے شہر درہم میں واقع ڈیوک یونیورسٹی میں ثقافتی بشریات کی پروفیسر ہیں۔ وہ خطے کی تاریخی صوفی ثقافت اور ریاستی پشت پناہی کی حامل جدیدیت پر تحقیق کی غرض سے 1976 میں پاکستان آئیں۔ 1997 میں اپنی جامع تحقیق کو ’آرگیوئنگ سینٹہوڈ’ نامی کتاب کی شکل دینے تک وہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں کئی بار پاکستان آئیں۔
کتاب کا زیادہ تر حصہ پنجاب کے زندہ پیروں اور نچلے طبقے کے گھرانوں پر کیتھرین کے بشریاتی (anthropological) اور تحلیل نفسی (psychoanalytical) جائزے پر مشتمل ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے ایسے پیروں اور سجادہ نشینوں کو حاصل سماجی اور سیاسی اثر و رسوخ پر پاکستانی ریاست کے ردِعمل کو بھی اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔
کیتھرین کے مطابق، ہندوستان میں 14ویں صدی سے صوفی بزرگوں، پیروں اور سجادہ نشینوں کا مسلم اور ہندو آبادیوں میں کافی اثر و رسوخ رہا ہے۔ انہیں ان مسلمان حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی جنہوں نے ہندوستان پر 13ویں صدی سے 19ویں صدی میں برٹش کولونیل حکومت قائم ہونے تک حکومت کی۔
اِس حقیقت کے باوجود کہ صوفی ازم کو روایت پسند مسلم دانشوروں یا علماء اور ملاؤں کے (بطور نظریہ باطنی اور ثقافتی شے) چیلنج کا سامنا رہا۔ لیکن پاکستان کے تجربہ کار تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی تحاریر میں اکثر اِس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ علماء اور ملاؤں کے پاس، پیروں (زندہ یا جو وفات پاچکے ہیں) کے پیروکاروں جیسے پیروکار نہیں تھے۔
پڑھیے: صوفی شاہ عنایت: سندھ کے پہلے سوشلسٹ
بوسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر، کیچیا علی 2016 میں چھپنے والی اپنی کتاب 'مینی لائیوز’ (Many Lives) میں لکھتی ہیں کہ، 19ویں صدی میں ہندوستانی صوفی ازم اور خطے کا ’مزار کلچر’ برٹش کے فراہم کردہ معقولیت اور ’جدیدیت’ خیالات اور علماء اور ملاؤں کے حلقوں میں ابھرتی ہوئی سلفیت کے درمیان پھنس کر رہ گیا۔ سلفیوں نے ہندوستان میں مسلم حکمرانی کے زوال کا ذمہ دار ’متنوع’ صوفی ازم کو ٹھہرایا۔
اِس کشمکش نے جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے ایک خاص الگ مسلک بریلوی کو جنم دیا، جو ہندوستان کے مزار اور پیر کلچر کے نظریاتی پہلوؤں کے دفاع کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔
سارہ ایف انصاری اپنی کتاب صوفی پیرز اینڈ اسٹیٹ پاورز (کیمبرج یونیورسٹی، 1992) میں لکھتی ہیں کہ، سلفیوں کی ہی طرح پیر بھی برٹش اور 19ویں صدی کے سر سید احمد اور سید امیر علی جیسے مسلم دانشوروں، جنہوں نے مزار کلچر کو توہم پرستی قرار دیا تھا، وہ بھی ‘اسلامی جدیدیت’ کے مخالف تھے۔
مگر سارہ کے مطابق، جب برٹش کو ہندوستان کی مسلم آبادی کے ایک بڑے حصے پر زندہ پیروں اور سجادہ نشینوں کے اثر و رسوخ کا اندازہ ہوا تو انہوں نے 1900 سے ’پیروں کو اپنے قابو’ میں کرنے کے لیے اُن کی سرپرستی اور اُنہیں خوش کرنے کا ایک پیچیدہ نظام متعارف کیا۔
ایونگ نے اپنی تحقیق میں پاکستان کے بانیوں کو ہندوستان کے اسلامی جدیدیت سے پھوٹنے والی شاخوں کے طور پر بیان کیا ہے، جدیدیت کو سب سے پہلے سر سید اور سید امیر علی جیسے دانشوروں نے متعارف کروایا اور آگے چل کر شاعر اور فلسفی محمد اقبال نے اِس خیال کو مزید تقویت بخشی۔
دیکھیے: سچل سرمست: ہفت زبان شاعر
جنوبی ایشیائی اسلامی جدیدیت کے مطابق اسلام ایک منطقی مذہب ہے جو اپنے اندر جدید سائنسی سوچ کو شامل کرنے (بلکہ حوصلہ افزائی کرنے) اور تیزی سے ہوتی ٹیکنولوجیکل، سیاسی اور سماجی ترقی کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی لچک اور وسعت رکھتا ہے۔
ایونگ نے لکھا ہے کہ 1958 میں جب فوجی سربراہ ایوب خان نے فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کی ابتدائی تقاریر نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ پیروں، علماء اور ملاؤں سے کچھ خاص متاثر نہیں۔ انہیں کمیونسٹوں سے بھی شدید نفرت تھی۔
ایوب خان نے بڑے ہی فخر کے ساتھ خود کو ایک جدیدیت پسند مسلمان بتایا اور 1960 کی ایک تقریر میں انہوں نے زور دیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو ایک جدید مسلم اکثریت ریاست کے طور پر تشکیل دیا تھا جسے قرآن مجید کی معقول تشریح، جدید سائنسی اور صنعتی تقاضوں کے مطابق چلایا جائے۔
انہوں نے زندہ پیروں اور سجادہ نشینوں کو ’توہم پرستی پھیلانے والوں’ کے طور پر دیکھا اور ملاؤں اور علماء کو ’منجمد ماضی’ میں پھنسا ہوا پایا۔ 1959 میں اُن کی حکومت نے ’مغربی پاکستان اوقاف’ قائم کیا جس کے تحت ملک کی مساجد اور صوفی مزارات کو ریاستی کنٹرول میں لایا گیا۔ ایونگ نے اپنی کتاب میں ایوب حکومت (1969-1958) کے دوران اوقاف کی جانب سے شائع کیے جانے والے پمفلیٹس کے چند تحریری حصوں کی نقول پیش کی ہیں۔
پڑھیے: رومی کی تلاش
پمفلیٹس میں معروف بزرگوں کی زندگیوں کو ’جدیدیت’ کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے، انہیں ایسے دانشمند اور دنیاوی معاملات کے ماہر کے طور پر بتایا گیا جنہوں نے (توہم پرستی کے برعکس) دنیاوی اور روحانی علم کی اہمیت پر زور دیا۔ پمفلیٹس میں علماؤں کو ’پسماندہ’ پیش کیا گیا ماسوائے ان 'حقیقی علماء' کے جو جدید علم اور سائنس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اِس دوران اوقاف کی جانب سے پیش کی جانے والی زیادہ تر تحاریر ڈاکٹر جاوید اقبال (محمد اقبال کے بیٹے) اور ڈاکٹر عبدالحکیم جیسے اسلامی جدیدیت پسندوں کی تحاریر سے ماخوذ ہوتی تھیں۔
بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بھی اِس پالیسی کو جاری رکھا مگر ایک دلچسپ تبدیلی کے ساتھ۔ بھٹو دور کے دوران اوقاف کی تحاریر پر اپنی تحقیق میں ایونگ نے دیکھا کہ مشہور صوفی بزرگوں کی شخصیت کے بارے میں خیالات مزید مقبول عام ہوئے۔ اُنہیں اب ایسے لوگوں کے طور پر پیش کیا گیا جو ناانصافی اور متنازع قدامت پسند مذہبی خیالات اور معاشی استحصال کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جبکہ علماء کو ’سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ایجنٹس’ اور رجعت پسند کے طور پر پیش کیا گیا۔
ایونگ لکھتی ہیں کہ بھٹو حکومت کے تحت اوقاف کے اختیارات میں توسیع کی وجہ سے کئی سجادہ نشین اپنی آمدنی سے محروم ہونے لگے۔ لہٰذا ازالے کے لیے انہوں نے بھٹو کی سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی۔ ایونگ نے اِس بات کو بھی نوٹ کیا کہ کئی ایسی رسومات جو کبھی صرف اور صرف سجادہ نشین ہی ادا کیا کرتے تھے (جیسے صوفی بزرگوں کی قبروں پر چادر چڑھانا) اب حکومتی وزراء کرنے لگے تھے۔
1980 کی دہائی میں جب کیتھرین کئی بار پاکستان آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ اوقاف کی تحاریر میں ایک بار پھر تبدیلی رونما ہو رہی ہے، یہ وقت تھا جنرل ضیاء کی قدامت پسند اور کٹر مذہب سوچ والی آمریت (1988-1977) کا۔ اگرچہ تحاریر میں ’توہم پرستی’ کے خلاف باتیں تو تھیں مگر اب صوفی بزرگوں کو کچھ اِس طرح پیش کیا گیا تھا کہ وہ حقیقی طور پر علماء ہی تھے لیکن اُن کی وفات کے بعد اُن کی شخصیت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا.
پڑھیے: بھٹ شاہ: ایک روح پرور جگہ
سرکاری چینل پی ٹی وی کے سابق جنرل مینیجر، مرحوم برنان الدین حسن نے 2003 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب 'ان سینسرڈ' میں لکھا ہے کہ پاکستانی فلموں، ٹی وی ڈراموں، ادب اور (ایوب اور بھٹو کی حکومت کے دوران) ریاست میں جس طرح علماء کی تصویر کشی کی جا رہی تھی اُس پر ضیا شدید برہم تھے۔ ضیاء کی وزارت برائے اطلاعات نے پی ٹی وی کو ایک ’تجویز’ جاری کی جس میں زور دیا گیا کہ ٹی وی ڈراموں میں علماء کے کردار کو ہمیشہ ’مثبت’ ہی دکھایا جائے۔
ایونگ نے لکھا ہے کہ ضیاء حکومت نے ہی علماء اور صوفی بزرگ کو آپس میں ملانے کی کوشش کی بلکہ جس طرح پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ اب صوفی بزرگوں کو علما کے طور پر ہی پیش کیا جاتا رہا۔
2009 میں اوقاف کی جانب سے شائع کیے جانے والا ایک پمفلیٹ کبھی میرے پاس بھی تھا—مطلب ایوب کے زوال کے 40 سال بعد، بھٹو کی پھانسی کے 30 سال بعد اور ضیاء کی موت کے 21 سال بعد کا ایک پمفلیٹ۔ بڑی ہی بے ترتیب تحریر تھی۔ اس میں صوفیوں کو 'ناانصافی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے والے دانا اور عالم فاضل ہیروز' اور 'شریعت کے نفاذ کے لیے علماء کے قریبی ساتھیوں’ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ دیگر لفظوں میں کہیں تو صوفی اب ہر فن مولا بن چکا ہے۔
یہ مضمون 9 جولائی 2017 کو ڈان کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔
ترجمہ ایاز احمد لغاری
ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔
ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔