جب معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کو 2005 میں یہ خبر ملی کہ ان کے پیارے نواسے بلال کا انتقال ہوگیا ہے، تو وہ ایک ہیلی کاپٹر میں گھوٹکی جارہے تھے، جہاں ایک خوفناک ٹریفک حادثے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے، مگر اپنے پیارے کی موت کی خبر کے باوجود انہوں نے گھر واپسی میں کوئی جلدی نہیں۔
عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی اپنے شوہر کے الفاظ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں 'بلال کی آخری رسومات کے لیے میرا انتظار مت کرنا، میرے بہت سارے بلال گھوٹکی میں میرا انتظار کررہے ہیں'۔
یہ تھے پاکستان کے 'رحم کے فرشتے'! گزشتہ سال اسی دن جب وہ اپنی آخری سانس لے رہے تھے، تو ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جس مقصد کے لیے گزارا وہ اب بدل کر رہ جائے گا۔
مگر کراچی کے علاقے میٹھادر میں بلقیس ایدھی کے گھر میں کچھ بھی مختلف نہیں ہوا، لوگ ایدھی ہیڈکوارٹرز کی عمارت میں آتے جاتے ہیں اور اس کی دوسری منزل پر بلقیس ایدھی لوگوں کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔
وہ اپنے شوہر سے محروم ہوچکی ہیں، جو کہ پاکستان میں اب تک سامنے آنے والے سب سے بڑے انسانیت نواز تھے، مگر لگتا ہے کہ وہ کبھی گئے ہی نہیں۔
وہ کہتی ہیں 'وہ میرے شریک حیات تھے، یقیناً میں انہیں یاد کرتی ہوں مگر وہ موت کے بعد غیرفانی ہوگئے، مجھے لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی بھی لمحے یہاں آ جائیں گے'۔
بلقیس ایدھی کی ایدھی صاحب سے شادی ان کے انتقال سے 50 سال پہلے ہوئی تھی، جو اپنے پیچھے انسانیت کی خدمت کی ایک پوری تاریخ چھوڑ گئے۔
وہ بتاتی ہیں ' میں اس وقت یہاں نرس کے طور پر کام کررہی تھی جب میری ملاقات ایدھی صاحب سے ہوئی، دو سال بعد انہوں نے شادی کے لیے میرا ہاتھ مانگا اور میری والدہ نے ہاں کردی'۔
عبدالستار ایدھی گھر کے اندر بھی اتنے ہی مہربان تھے جتنا وہ باہری دنیا میں اجنبیوں کے لیے تھے۔