پاکستان

دریائے سندھ میں پلر کے بغیر پل اور ’ہو جمالو‘ کی داستان

روہڑی اور سکھر کو ملانے والا پل دور سے سڈنی ہاربر، ٹینی برج نیوکاسل اور ممبئی کی بندرا وورلی برج جیسا نظر آتا ہے۔

دور سے سڈنی ہاربر برج، ٹینی برج نیو کاسل، جارج برج ورجینیا ، سان فرانسسکو ، سان ڈیگو، لندن اور ممبئی کے بندرا وورلی برج جیسا نظر آنے والا شمالی سندھ کے جڑواں شہروں روہڑی اور سکھر کو آپس میں ملانے والا منفرد اورتاریخی لئنسڈاؤن پل دنیا بھر میں نہ صرف صوبے بلکہ پاکستان کی پہچان بنا ہوا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے صوبے کے تیسرے بڑے اور شمالی سندھ کے اہم ترین کاروباری شہر سکھر اور روہڑی کو ملانے والا لئنسڈاؤن پل نہ صرف فن تعمیرکا شاہ کار نمونہ ہے، بلکہ اس پل کو برصغیر کے لوگ ایک صدی قبل دنیا کے عجائبات میں بھی شمار کرتے تھے، آج بھی سندھ بھر کے لوگ اس کے سحر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

اس تاریخی پل کو بنے ہوئے ایک صدی سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر آج بھی لوگ اس پل کو دیکھنے کے لیے ایسے آتے ہیں، جیسے یہ ایک دہائی قبل ہی بنایا گیا ہو۔

لئنسڈاؤن پل سندھ کے اس حصے میں واقع ہے جہاں تفریحی مقامات بہت کم پائے جاتے ہیں، اس لیے شمالی سندھ کے ہزاروں لوگ اس پل کو کئی سالوں سے تفریحی مقام کی غرض سے دیکھتے اور یاد کرتے آئے ہیں۔

اس پل کی خوبصورتی اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر سندھی زبان کے کئی نامور شاعروں نے نہ صرف شاعری کی، بلکہ اس کا ذکر سندھی افسانوں، شادی بیاہ کے موقع پر گائے جانے والے ڈھولکی گیتوں میں بھی ملتا ہے۔

—فوٹو: فاروق سومرو

اس پل کے حوالے سے مورخ رحیم داد خان مولائی شیدی نے اپنی کتاب ’تاریخ سکھر‘ میں لکھا کہ لئنسڈاؤن پل 130 سال قبل اس وقت بنایا گیا، جس وقت انگریز سرکار نے سکھر کی کاروباری اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا، اس سے پہلے انگریز سرکار کا کاروبار انڈس فلوٹیلا جہاز رانی کمپنی کے ذریعے بحری جہازوں اور بیڑیوں کی مدد سے ہوتا تھا۔

کاروبار کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریز سرکار نے صوبہ سندھ میں ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کر دیا اور یوں 1858 میں کراچی سے کوٹڑی تک انڈس ویلے اسٹیٹ ریلوے کی پہلی لائن بچھائی گئی، بعد میں ریلوے لائن کا دائرہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بڑھاتے ہوئے سکھر تک لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا گیا۔

حکومت ہند نے 1872 سے سکھر اور روہڑی کو ملانے کے لیے لئنسڈاؤن پل بنانے کے منصوبے پر غور کرنا شروع کر دیا تھا، لیکن پل بنانے کی منظوری 1883 میں دی گئی، بعض وجوہات کے باعث پل کا کام کچھ سال تک تاخیر کا شکار ہوا، لیکن 1877 میں باقاعدگی سے پل کی تعمیر کا آغاز کردیا گیا۔

—فوٹو: فاروق سومرو

لئنسڈاؤن پل کو دریا کے بیچوں بیچ بغیر سہارے کے بنایا گیا، 900فٹ طویل پل سے بیک وقت 2 گاڑیاں گزر سکتی ہیں جب کہ پیدل چلنے والوں کے لیے پل کے سائیڈ میں پیڈسٹل فٹ پاتھ بنایا گیا ،پل کی تعمیر میں استعمال کیا گیا لوہا کسی بھی پلر کے بغیر ڈزائنر کی مہارت سے ایک صدی سے زائد عرصے سے وزن اٹھائے ہوئے ہے۔

لئنسڈاؤن پل کی تکمیل 2 سال کے مختصر عرصے میں مکمل کیے جانے کے بعد 25مارچ 1889 کو پل کاافتتاح کردیا گیا۔

افتتاحی تقریب کی صدارت ممبئی کے گورنر لارڈ ریئی نے کی، تقریب میں سندھ کے کمشنر چارلس پرچرڈ، خیرپور ریاست کے والی میر مراد علی سمیت سندھ اور پنجاب کے اعلیٰ حکا م اور دیگر بڑے لوگوں نے شرکت کی۔

گورنر لارڈ نے اپنی تقریر میں کہا تھا پل پر 40 لاکھ روپے خرچہ آیا، پل کی تعمیر میں 3300 ٹن لوہا استعمال ہوا، جو انگلینڈ سے منگوایا گیا، گورنر نے کہا افتتاحی تقریب میں وائسرائے ہند ’ہینری چارلس کیتھ پیٹی لئنسڈاؤن‘ خود آنا چاہتے تھے، لیکن افسوس کہ وہ نہ آ سکے لیکن انہوں نے پل کو اپنے نام سے منسوب کرنے کی اجازت دی۔

—فوٹو: فیس بک

سندھ حکومت کےتحت شائع ہونے والے 60 سال پرانے رسالے مہران میں شائع ایک مضمون کے مطابق لئنسڈاؤن پل کا ڈیزائن سر الیگزینڈر میڈوس رینڈل نے تیار کیا تھا،جب کہ پل کی تعمیر ایف ای رابرٹسن اور ہیکوئٹ نامی انجنیئرز کی نگرانی میں ہوئی۔

پل کے ذریعے سندھو دریا کے دونوں کناروں پرموجود شہروں سکھر اور رہڑی کو آپس میں ملاکر اس پر ریلوے لائن بچھائی گئی۔

لئنسڈاؤن پل کی تعمیر اور ریلوے لائن کی بحالی کے بعد انڈس فلوٹیلا نامی جہاز رانی کمپنی کا کاروبار بند ہوگیا اور دونوں شہروں کے قریب ہونے سے تجارت میں آسانی پیدا ہوگئی، لئنسڈاؤن پل پر بچھائی گئی ریلوے لائن پر 73 سال تک ریل چلتی رہی لیکن 1962 میں پل کی کمزوری کے بعد ریلوے کا سفر بند ہوا۔

لئنسڈاؤن کی مدد کیلئے ایوب پل

تاریخی لئنسڈاؤن پل کے کمزور ہونے کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایسا ہی ایک اور پل بنانے کا منصوبہ بنایا، لئنسڈائون پل کے قریب ہی ایوب پل بنایا گیا جس کا کام 6 دسمبر 1960ع کو شروع جب کہ 6 مئی 1962ع کو مکمل ہوا، ایوب پل پر ریلوے لائن بچھا کر لئنسڈاؤن پل کو گاڑیوں کی آمد و رفت سمیت پیدل چلنے والے لوگوں کے لیے مختص کیا گیا۔

—فوٹو: فاروق سومرو

لئنسڈاؤن پل کی طرز پر تعمیر کیے گئے ایوب پل سے نہ صرف لئنسڈاؤن پل تباہ ہونے سے بچ گیا بلکہ اس کی خوبصورتی میں بھی مزید اضافہ ہوا،ایو ب پل کو بنے ہوئے بھی کئی دہائیاں ہوگئی ہیں لیکن آج تک پاکستان میں کہیں بھی لئنسڈاؤن جیسا پل تعمیر نہیں کیا جاسکا۔

پل سے منسوب لوک کہانی ’ہوجمالو‘

—فائل فوٹو

پل سے منسوب ایک لوک کہانی کے مطابق جب لئنسڈاؤن پل سے انگریز سرکار نے ریل کا سفرشروع کرنا چاہا تو کوئی بھی ٹرین ڈرائیور پل سے ریل چلانے کے لیے تیار نہ ہوا، پھر انگریزوں کو معلوم ہوا کہ جمالو شیدی نامی ایک قیدی ہے جو پل سے ٹرین گزار سکتا ہے، انگریز سرکار نے جمالو شیدی سے معاہدہ کیا کہ اگر وہ پل سے ٹرین گزار گیا تو اس کی باقی سزا ختم کردی جائے گی۔

جمالو شیدی نے جب کسی پلر کے بغیر بنائے گئے لئنسڈائون پل سے ٹرین کو گزارا تو اس کے رشتہ داروں نے پہلی بار’ہو جمالو‘ گایا، جس کے بعد یہ گیت سندھ کا سب سے مشہور لوک گیت بن گیا،آج تک سندھ بھر کے لوگ خوشی کے وقت جوش سے ’ہوجمالو‘ گاتے ہیں۔

ہوجمالو کی تاریخ کے حوالے سے بھی سندھ کے مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم زیادہ تر مؤرخین کے مطابق ہوجمالو اس وقت ہی گایا گیا جب جمالو شیدی نے لئنسڈاؤن پل سے ٹرین کو گزارا۔