دنیا

قطر کشیدگی: ’بائیکاٹ اور پابندیاں جاری‘

یہ فیصلہ قطر کشیدگی کے حوالے سے مصر کے دارالحکومت قائرہ میں ہونے والے 4 خلیجی ریاستوں کے اجلاس میں کیا گیا۔

قائرہ: قطر کشیدگی کے حوالے سے مصر کے دارالحکومت قائرہ میں 4 خلیجی ریاستوں کے ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ قطر پر مزید پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی تاہم بائیکاٹ جاری رہے گا۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق اس سے قبل قطر نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کو واضح جارحیت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ الزامات اس وقت بھی لگائے گئے تھے جب وہ اتحادی تھا ’جس کا واضح مقصد مغرب میں قطر کے خلاف جذبات پیدا کرنا ہے‘۔

خیال رہے کہ 4 عرب ریاستیں قطر پر دہشت گردوں کی مدد اور ایران کے اتحادی ہونے کا الزام لگاتی آئی ہیں تاہم دوحہ نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے جبکہ ان 4 ریاستوں کی جانب سے قطر کو پیش کیے جانے والے 13 مطالبات کے حوالے سے دیئے گئے وقت کے اختتام پر گذشتہ روز ان کے وزراء خارجہ نے قائرہ میں ایک ملاقات کی۔

اس ملاقات کے دوران اس خیال کا اظہار کیا جارہا تھا کہ وہ قطر پر مزید پابندیوں کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے لیکن نئی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں۔

مزید پڑھیں: سیکیورٹی کونسل کا خلیج تنازع کے حل کیلئے مذاکرات پر زور

اجلاس کے بعد مصر کے وزیر خارجہ صالح نے ایک پریس کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ سناتے ہوئے کہا کہ ’4 ریاستوں کے مطالبات پر منفی رد عمل ظاہر کیا گیا ہے، ہم نے قطر کو اپنی پالیسز سے دستبردار ہوتے ہوئے نہیں دیکھا‘۔

مذکورہ پریس کانفرنس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ’قطر کی جانب سے ان کی موجودہ پالیسز میں تبدیلی نہ کرنے کے باعث ان کا سیاسی اور معاشی بائیکاٹ جاری ہے‘۔

ان چار عرب ریاستوں کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ بحرین کے دارالحکومت ماناما میں ملیں گے تاہم انہوں نے اس ملاقات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، خیال رہے کہ گذشتہ روز قائرہ میں چاروں ممالک کے انٹیلی جنس چیفس نے بھی ایک ملاقات کی تھی۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس اُمید کا اظہار کرتے ہیں کہ اس تنازع میں ترکی کا کردار غیر جانبدارانہ رہے گا۔

خیال رہے کہ ترکی خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے جس نے قطر کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ جاری حالیہ عرب تنازع کے دوران ترکی نے قطر کے لیے ضروریات زندگی کی اشیاء سے بھرے 100 کارگو طیارے بھیجے، کیونکہ دیگر عرب ریاستوں نے قطر سے زمینی اور بحری راستہ منقطع کررکھا ہے جبکہ ترکی نے قطر میں مزید فوج کی تعیناتی کے لیے قانون سازی کی منظوری بھی دے دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے رواں ہفتے کے آغاز میں قطر میں اپنے بیس کو بند کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عرب ریاستوں کے مطالبات قطر کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔

گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصر کے صدر الفتح السیسی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا، جس میں قطر معاملے پر بات چیت کی گئی تھی۔

ادھر قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے لندن میں ایک تھنک ٹینک کی منعقدہ تقریب میں کہا تھا کہ دوحہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کا مطالبہ کرتا رہے گا، ’یہ 12 ہزار خاندانوں کو علیحدہ کرنے علاوہ واضح جارحیت اور تمام بین الاقوامی معاہدوں، اداروں اور عدالتی فیصلوں کی توہین بھی ہے‘۔

یاد رہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے 22 جون کو 13 مطالبات پیش کرتے ہوئے قطر کو 2 جولائی کی ڈیڈلائن دی تھی تاہم پیر (3 جولائی) کو ڈیڈلائن میں مزید 2 دن کا اضافہ کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: قطر نے سعودی اتحادیوں کےمطالبات کا جواب دےدیا

سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے 5 جون کو قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگاتے ہوئے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد خطے میں سفارتی بحران پیدا ہوگیا تھا۔

دوسری جانب قطر نے دہشت گردوں کی معاونت کے الزامات کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔

خلیجی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے بحران کے بعد کویت کے علاوہ کئی مغربی ممالک نے بحران کے خاتمے کے لیے ثالثی کی کوشش کی۔