پاکستان

'کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کی جائیں'

حقانی نیٹ ورک پاکستان نہیں افغانستان میں موجود ہے اور وہیں سے کارروائیاں کر رہا ہے، ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا

اسلام آباد: مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے بین الاقوامی برادری سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'بہمانو اور کاکپورہ میں بھارتی فورسز کے تباہ کیے گئے گھروں سے ملنے والی کشمیری نوجوانوں کی لاشیں اتنی بری طرح جلی ہوئی تھیں کہ ان کی شناخت ممکن نہیں رہی تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر انڈین فورسز کی جانب سے کشمیریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین اور کیمیکل ویپنز کنوینشن کی خلاف ورزی ہوگی'۔

مزید پڑھیں: بھارتی فورسز کی فائرنگ، 3 'عسکریت پسند' ہلاک،35 کشمیری زخمی

بھارت کی اشتعال انگیزی پر تنقید کرتے ہوئے نفیس ذکریا نے کہا کہ 'سرجیکل اسٹرائکس کے جھوٹے دعوؤں سے بھارت کی غیر سنجیدگی عیاں ہے، کیونکہ ایسے دعوے خطے میں قیام امن اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہیں'۔

ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'پوری امت مسلمہ کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ہے'۔

یاد رہے کہ دو روز قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے ملک کی عدلیہ پر زور دیا تھا کہ قانونی اور انسانی حقوق کے معاملات کی سختی سے حمایت یا مخالفت کریں، تاکہ پوری دنیا کو اپنے موقف سے آگاہ کیا جاسکے۔

نفیس ذکریا کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کو ٹیکنالوجی کی فراہمی پر پاکستان کو شدید خدشات ہیں اور پاکستان اپنے خدشات سے عالمی برادری کو آگاہ کرتا رہے گا۔

حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی مسترد

ملک میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ پاکستان سے طالبان اور دہشت گردوں کے دیگر نیٹ ورکس کا خاتمہ کیا جاچکا ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں موجود ہے اور وہیں سے کارروائیاں کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خاتمے کے بعد بچے کچھے طالبان افغانستان فرار ہوگئے تھے اور حقانی نیٹ ورک بھی پاکستان نہیں بلکہ افغانستان میں موجود ہے۔

افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کو واضح کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حقانی گروپ کے کئی رہنما افغانستان میں ہی مارے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ ایک روز قبل امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مک کین نے کہا تھا کہ افغانستان میں عسکریت پسندی اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے امریکا پاکستان کی مدد پر انحصار کیے ہوئے ہے۔

دورہ کابل کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے جان مک کین کا کہنا تھا کہ، 'ہم واضح کرچکے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں اور حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے ہم پاکستان سے تعاون کی امید رکھتے ہیں اور اگر پاکستان اپنا رویہ نہیں بدلتا تو شاید ہمیں پاکستانی قوم کی طرف اپنا رویہ بدلنا چاہیے'۔