جمی نے سوچا: ٹرمپ
پاکستان میں فراغت کا سب سے بہترین مشغلہ امریکا پر تنقید کرنا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی چند تنگ نظر پالیسیوں کے بعد یہ سلسلہ اور بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔
لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ آج بھی سیکڑوں درخواست گزار اپنے دل میں امریکی ویزے کی امیدیں لیے امریکی قونصل خانے میں قطاریں بنائے نظر آتے ہیں۔ کوئی روزگار کا بہتر حصول چاہتا ہے تو کوئی علمی پیاس کو بجھانا۔ اگر امریکا میں لاکھ برائیاں ہیں تو یہ جدوجہد کس لیے؟
ٹرمپ کی پالیسیاں بھلے ہی تنگ نظر ہوں، مگر وہاں ان کے خلاف مزاحمت کی آزادی بھی تو ہے، عوام کو حقیقتاً طاقت کا سرچشمہ تو سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی سفید فاموں والے اس دیس میں اگر تارک وطن بن جائیں تو کم از کم آپ کو کسی خلیجی ریاست سے تو زیادہ حقوق سے نوازا جائے گا، ہاں متعصبانہ رویہ تو ہر جگہ مساوی ہے۔
امریکا کے مثبت پہلوؤں کی وجہ سے وہاں جانا تو گوارا ہے پھر ان پہلوؤں کی تعریف کرتے ہوئے زبان کیوں ہچکچاتی ہے؟
جمی نے ٹھیک ہی سوچا کہ برا بھی امریکا اور جانا بھی امریکا۔
ڈان نیوز کی جانب سے پیش ہے ایک فکر انگیز سلسلہ، "جمی نے سوچا".
جمی ایک عام پاکستانی ہیں جو مختلف چیزوں کے بارے میں سوچنے اور سوال کرنے کا شوق رکھتے ہیں.
اگلا سوال اگلے جمعے..
فیس بک پر جمی سے ملنے کے لیے کلک کریں۔