نقطہ نظر

ضیاء الحق اور میرا اسکول

انہی راہداریوں میں اور ان کھیل کے میدانوں میں میں نے لوگوں کو بدلتے اور ایک معاشرے کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔

جب 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کیا، تو میں اس وقت 10 سال کا تھا اور چھٹی جماعت میں آیا تھا۔ یہ 11 سال طویل انتہائی سخت اور جابرانہ حکومت کا نکتہءِ آغاز تھا۔

میرا اسکول کراچی میں 14 ایکڑ زمین پر قائم تھا۔ عمارت چھتری نما ایک متاثر کن گنبد جیسی تھی جو ستونوں پر کھڑی تھی۔ اس کا اونچا ترین حصہ گولائی میں رنگین شیشوں سے مزین تھا۔ اس گنبد سے ہر جانب طویل راہداریوں میں کلاسیں اور دفاتر تھے۔

گنبد کے گرد کچھ سیدھے بلاکس بھی تعمیر کیے گئے تھے۔ پوری عمارت کے ساتھ ساتھ بڑے اور گرد آلود کھیل کے میدان تھے، جیسا کہ بارشوں سے عام طور پر محروم شہر کے زیادہ تر اسکول ہوتے ہیں۔

اسی گنبد کے نیچے اور ان راہداریوں میں اور ان کھیل کے میدانوں میں میں نے لوگوں کو بدلتے، ایک تشخص کو تبدیل ہوتے، ایک معاشرے کو بکھرتے، اور ایک قوم کو نئی ساخت میں ڈھلتے دیکھا۔

چوں کہ میرا اسکول وفاقی حکومت کے ماتحت فوجی ادارے کینٹونمنٹ اینڈ گیریژن ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز (سی اینڈ جی ای آئی) کے زیرِ انتظام ایک سرکاری اسکول تھا، اس لیے 1977 میں اور اس کے بعد آنے والی کئی تبدیلیاں تو فوری تھیں، جبکہ کچھ تبدیلیاں آنے میں وقت لگا۔

مثال کے طور پر اس سال کے بعد سے اسکول کی ڈراما سوسائٹی اور میوزک سوسائٹی ختم کر دی گئی تھیں۔ اسکول کا براس بینڈ جاری رہا، مگر بینڈ کے کنڈکٹر کو میوزک سوسائٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے فزیکل ٹریننگ سیکشن میں بھیج دیا گیا۔

اقبال کی مشہور نظم بچے کی دعا، "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری، جس میں بچوں کو علم حاصل کرنے، دوسرے انسانوں کے ساتھ ایثار و قربانی کے جذبے سے پیش آنے، اور غریبوں اور کمزوروں کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دی گئی ہے، اسے صبح کی اسمبلیوں میں پڑھنا بند کر دیا گیا۔

اس کے بجائے بینڈ پر مشہورِ زمانہ فوجی نغمہ 'اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا' بجایا جاتا اور ہم سب بچے اس دھن پر مارچ کیا کرتے۔

4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اسکول بند کر دیا گیا اور کچھ عرصے کے لیے ہم اس متاثر کن نغمہءِ شہادت پر مارچ نہیں کر سکے۔

ایک صبح میرے بھائی اور میں اپنی والدہ کی چیخوں اور دروازے پر ان کے منتظر رکشے کی پھٹپھٹی آوازوں سے اٹھے۔ ہمارے نانا جان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ وہ اس وقت 85 سال کے تھے۔ ان کے بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے ان پر کوئی الزامات عائد نہیں کیے گئے۔ ان کا جرم صرف بھٹو کی قید کے دوران انہیں اظہارِ یکجہتی کے خطوط لکھنا تھا۔

جب اسکول دوبارہ شروع ہوا تو ایک ٹیچر نے مجھے اپنے ہم جماعت کو یہ کہانی سناتے ہوئے سن لیا اور کہا: "اسکول میں کوئی سیاست نہیں۔ کہیں بھی کوئی سیاست نہیں۔ کوئی سیاست کبھی بھی نہیں۔" یوں تو وہ ایک گرم جوش اور ملنسار شخصیت تھے مگر اس دن کے سرد مہر لہجے نے مجھے ششدر کر دیا۔ میری آنکھوں میں ایسا خوف اتر آیا تھا کہ میرے باقی سارے دوست بھی خوفزدہ نظر آ رہے تھے۔

1980 کی گرمیوں کے آغاز میں ہماری کلاس نوویں درجے میں داخل ہوئی۔ ہماری دوستی کسی بھی مقابلے، رقابت اور اختلافات سے بڑھ کر تھی۔ ہم لوگ اپنی لاعلمیوں میں خوش تھے، ایک دوسرے کی زبان، قومیت، خاندان، اور عقیدے کے بارے میں پریشان ہونا تو دور کی بات ہے۔

مگر نوویں جماعت کے پہلے دن کی اس گرم دوپہر میں ہماری اسلامیات کی کلاس تھی۔ ٹیچر نے آغاز میں ہی بتا دیا کہ غیر مسلم طلباء اگر فیڈرل بورڈ کے امتحانات کے لیے اسلامیات نہ پڑھنا چاہتے تو ان کے پاس اخلاقیات کا مضمون پڑھنے کا انتخاب موجود تھا۔ مگر غیر مسلم طلباء کن مسلمان بچوں کے ساتھ بیٹھتے؟ کیوں کہ ٹیچر نے اس کے بعد طلباء سے پوری کلاس کے سامنے اپنا اپنا مسلک بتانے کے لیے بھی کہا۔ اب ہماری کتابیں ایک جیسی نہیں رہی تھیں۔ نوویں جماعت کے بچوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا تھا۔

اس دہائی کے وسط اور اواخر میں میں پہلے سے بڑا تھا اور ضیاء حکومت کی جانب سے پہلے پاکستان اور پھر افغانستان میں جاری ظلم و تشدد کے بارے میں آگاہ ہو چکا تھا۔ میں نے ذاتی طور پر آزادیءِ اظہار پر پابندیوں کو دیکھا بھی اور جھیلا بھی، اور ضیاء مخالف کارکنوں کو حکام اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے ہراساں کیا جانا بھی دیکھا۔ میں نے قومیتی و لسانی فسادات اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھی دیکھی۔ ایک جانب تو ضیاء الحق سیاست اور مذہب، زبان اور ادب، کلچر اور آرٹ، ہر چیز میں یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کوشاں تھے، تو دوسری جانب ان کی پالیسیوں اور حکمتِ عملیوں نے جان بوجھ کر پاکستانی معاشرے اور سیاست کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ پریشان کن اور سمجھ سے بالاتر ہے۔

مگر میرے لیے جنرل ضیاء کی سب سے بڑی 'وراثت' ان کی جانب سے اپنے دور سے پہلے کی تمام یادیں، ہماری اجتماعی قومی نفسیات سے تاریخ کا ہر نام و نشان مٹا دینا ہے۔ ضیاء الحق کی موت سے دو سال قبل 1986 میں ہمارے اسکول کی ملٹری انتظامیہ نے اسکول کا گنبد گرا کر تمام پرانی عمارتیں مسمار کر دینے کا فیصلہ کیا۔

خالی ہونے والی جگہ پر خاموشی سے دو جونیئر اور سینیئر اسکول تعمیر کر دیے گئے جبکہ اصل زمین کے زیادہ تر حصے کو رہائشی اسکیم میں تبدیل کر دیا گیا۔

آج نہ وہاں پر اس گنبد کا نام و نشان ہے اور نہ کینٹونمنٹ پبلک اسکول کا کوئی وجود باقی ہے۔ آپ جب اس جگہ جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ علاقہ ہمیشہ سے ایسا تھا — فلیٹس، دکانیں، سڑکیں، مسجد، اور دو سادہ سے اسکول۔ اس کے علاوہ اور کوئی یاد باقی نہیں ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 2 جولائی 2017 کو شائع ہوا۔

حارث خلیق

لکھاری اسلام آباد میں مقیم شاعر اور مضمون نگار ہیں۔ حال ہی میں ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ‘Crimson Papers: Reflections on Struggle, Suffering, and Creativity in Pakistan’ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔