چالیس سال پہلے ضیا نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک میں تیسرا اور سب سے طویل مارشل لا نافذ کر دیا۔ اگلی دہائی کے دوران انہوں نے پاکستان کو ایک سیکولر اور جمہوری ریاست بنانے کے قائد اعظم کے خواب کو چھوڑ کر ملک کو مکمل طور پر ایک مذہبی ریاست میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کے کاموں کے اثرات تین دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور مستقبل میں دور دور تک اس کا کوئی متبادل سیاسی ڈھانچہ نظر نہیں بھی آ رہا۔
پاکستان کا تشخص مکمل طور پر بدل ڈالنے اور اپنی اسکیم کو جاری و ساری رکھنے میں انہیں ملنے والی کامیابی کو سمجھنے لیے ہمیں ’تصورِ پاکستان’ کا جائزہ لینا ہوگا کیوں کہ انہوں نے لوگوں کے دو گروہوں کے درمیان اس بات پر لکیر کھینچ دی تھی کہ پاکستان کو کیسا ہونا چاہیے تھا۔
قرارداد لاہور 1940 میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں درج قانون ساز اسکیم کے متبادل کے طور پر ایک قانون ساز اسکیم پیش کی گئی تھی۔ 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے اپنے خطاب کے دوران تشکیل پاکستان اور تقسیمِ ہند کو ہی ہندوستان کے دستوری مسئلے کا واحد حل بتایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریکِ پاکستان مذہبی مقاصد سے پاک خالصتاً ایک سیاسی جدوجہد تھی۔
مگر برٹش انڈیا کے خطے کے دو حصوں کے لیے پیش کی گئی اس نئی دستوری اسکیم کی بنیاد یہ تھی کہ یہ مسلمان اکثریتی علاقے ہیں اور، جب مسلمان رہنما اپنی برادری کے لیے مناسب (آئینی و قانونی) تحفظ حاصل کرنے میں ناکام ہوئے اور انہیں ایک بڑی اقلیت قرار دیا گیا، تو آل انڈیا مسلم لیگ دو قومی نظریے کے لیے کافی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس نظریے کے مطابق ہندوستان کے مسلمان ایک قوم کی حیثیت تھے، اکثریتی (ہندو) برادری سے مکمل طور پر مختلف تھے اور اپنی الگ ریاست بنانے کا حق رکھتے تھے۔
جن لوگوں کے لیے اس نئی ریاست کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر پاکستان کے مطالبے نے اس خیال کو تقویت دی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا۔ اور قائد اعظم نے نہ مذہبی سیاست کی حمایت کی اور نہ ہی کبھی (اس تحریک کے پیچھے موجود) مذہبی جذبات سے انکار کیا۔ گاندھی نے پیش کش کی کہ اگر الگ ملک کا مطالبہ مذہبی بنیادوں پر نہ کیا جائے تو وہ پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنے کے لیے کانگریس کو منائیں گے، لیکن انہوں نے اس پیش کش کو بھی مسترد کر دیا۔
جناح اکثر اوقات فرماتے تھے کہ وہ ایک جمہوری ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اسلام بھی اس بات کی حمایت کرتا ہے۔ مگر چند علماء کو چھوڑ کر باقی تمام علماء دین مانتے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں ہوگا.
1945-46 کے انتخابات نے پاکستان کے حامی حلقوں کے درمیان ایک نمایاں تقسیم کا انکشاف کیا۔ جہاں مسلم لیگ یہ واضح کیے بغیر کہ پاکستان کس طرح کا ہوگا، پاکستان کا مطالبہ کر رہی تھی (جیسے، خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مذہبی نعرے لگائے جا رہے تھے)۔ 'پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ' (ہندوستانی مسلمانوں کا) عمومی نعرہ تو نہیں تھا، لیکن چند مقامات پر باقاعدگی سے ضرور بلند کیا جاتا تھا۔ دیگر مذہبی نعرے جیسے، 'مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ' اور 'پاکستان میں مسلمان کی حکومت ہوگی' اکثر و بیشر بلند کیے جاتے۔
مذہب نے تحریکِ پاکستان میں اپنا کردار ادا کیا تھا، اس بات کی تصدیق تب ہوگئی جب پنجاب میں کانگریس کے مہم کاروں نے اپنی اعلیٰ کمان سے مدد کے لیے چند مسلمان دانشوروں کو بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ یوں پاکستان کے حامی دو کیمپس میں تقسیم ہو گئے؛ ایک وہ جن کے بارے میں کسی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جمہوریت کے پکے حامی تھے جبکہ دوسرے وہ جو مبہم طور پر مذہبی ریاست کے تصور سے منسلک تھے۔ ضیا کے پاکستان کی جڑیں اسی تقسیم میں موجود ہیں۔
تشکیل پاکستان کے ساتھ دونوں گروہوں کے مزاج میں تبدیلی آئی۔ قائد اعظم نے محسوس کیا کہ اب مذہبی کارڈ کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے ایک ریاست بننے سے تین دن قبل انہوں نے دو قومی نظریے کو خدا حافظ کہہ دیا اور لوگوں کی پاکستانی شہریت کی بنیاد پر ایک نئی قوم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ جن مذہبی جماعتوں نے پاکستان کے مطالبے کی مخالفت کی تھی، انہوں نے مکمل طور پر اپنا مؤقف تبدیل کر لیا اور پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا۔
دو عناصر نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا: انہوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی کیوں کہ انہیں کوئی امید نہ تھی کہ یہ ملک ایک اسلامی ریاست بننے جا رہا ہے اور یہ کہ اس ملک میں مسلمان برائے نام اکثریت حاصل کرنے جا رہے تھے اور یوں اسے ایک اسلامی ریاست قرار دینا تقریباً ناممکن ہونا تھا۔ مگر پنجاب اور بنگال کی تقسیم نے صورتحال کو بدل دیا۔ 6 کروڑ 50 لاکھ کی آبادی والے نئے پاکستان میں، غیر مسلموں کی تعداد قریب 2 کروڑ تھی، اور ان کی زیادہ تر تعداد مشرقی حصے میں موجود تھی۔ اس وقت جاری فسادات سے غیر مسلم آبادی مزید کم ہو گئی۔ علاوہ ازیں، مذہبی جماعتیں انتخابات میں مذہبی نعروں کی طاقت دیکھ چکی تھیں۔ ان دو عناصر نے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے امکانات کو مزید روشن کر دیا تھا۔
مولانا مودودی ان اوّلین علماء میں سے تھے جنہوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ پاکستان ہجرت کر کے آئے، اپنی ایک اہم کتاب 'مسلمان اور سیاسی کشمش' سے پاکستان مخالف نظریات کو خارج کر دیا، اور پنجاب حکومت کی جانب سے بیوروکریٹس کو اسلامی اقدار پر لیکچر کی دعوت کو قبول کیا جبکہ ان کی باتوں کو ریڈیو پر بھی نشر کیا گیا۔ لیکن انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں اس وقت حکومت کی خیر خواہی کھو دی جب انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان کی کشمیر میں مداخلت کو جہاد نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ ملک ایک اسلامی ریاست نہیں ہے۔
تشکیل پاکستان کے چند ماہ کے اندر ہی، فروری 1948 میں مختلف مکاتب فکر کے علماء نے حکومت کے سامنے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جس میں ایک مذہبی ریاست کو قائم کرنے کے لیے ضروری اقدامات درج تھے۔ ان مطالبات کو زیر غور لانے کے وعدوں کے ساتھ ایک جگہ رکھ دیا گیا۔ مگر مشرقی بنگال کی جانب سے اس کے ثقافتی حقوق کو تسلیم کرنے کے مطالبوں نے حکومت کو پریشان کر دیا تھا، چنانچہ حکومت نے اسلامی یکجہتی کے معیار کو بلند کرتے ہوئے ان مطالبوں کا سامنا کرنے کی کوشش کی۔ بالآخر حکومت نے مارچ 1949 کی قرارداد مقاصد میں جائے پناہ تلاش کی جس میں وہ تمام باتیں نظر آئیں جو آبادی کے مختلف حلقوں کے لیے موزوں تھیں۔
اس قرارداد کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ اللہ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے۔ علماء خوش تھے۔ نعرے مارنے والوں نے جناح کی لابی کو شکست دے دی تھی۔ جماعت اسلامی نے اب پاکستان کو ایک اسلامی ریاست قرار دے دیا۔ قرارداد مقاصد پر ایک سب سے قابل ذکر تبصرہ ایک کانگریسی رکن اسمبلی کی جانب سے آیا جنہوں نے اسمبلی کو خبردار کیا کہ قرارداد نے کسی بھی ایسے مہم جو شخص کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے جو خدا کا مقرر کردہ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ اور جنرل ضیاء نے بالکل یہی کیا۔