پاکستان

پاکستانی حکام نے میری رہائی کیلئے قانون کا مذاق بنادیا:ریمنڈ ڈیوس

امریکی جاسوس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ قصاص اور دیت کے قانون پر انحصار کرنا ان کا پہلا انتخاب نہیں تھا۔

واشنگٹن: لاہور میں 2 شہریوں کو فائرنگ کرکے قتل کرنے والے امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سابق اہلکار ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ ان کی رہائی کے معاملے میں پاکستان میں موجود قصاص اور دیت کے قانون کا غلط استعمال کیا گیا تھا۔

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کا سرورق—۔

ریمنڈ ڈیوس نے جنوری 2011 میں لاہور میں مبینہ طور پر اپنی جان بچانے کی کوشش میں 3 نوجوانوں کا قتل کرکے پاک-امریکا تعلقات میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔

'The Contractor: How I Landed in a Pakistani Prison and Ignited a Diplomatic Crisis' نامی کتاب میں امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سابق ملازم ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات بیان کی ہیں۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے پاکستان کے قانونی نظام پر سوال کھڑے کردیے جن میں قصاص اور دیت کے قوانین خاص توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: 2 پاکستانیوں کا قتل،امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی واقعے پر کتاب

سی آئی اے کے سابق اہلکار نے اپنی کتاب میں بیان کیا کہ کس طرح پاکستان میں ان کی رہائی کے لیے پاکستانی حکام اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی جانب سے ’قانون کا مذاق اڑایا گیا‘۔

اس کے علاوہ مارچ 2011 میں ریمنڈ ڈیوس کے ٹرائل کے حوالے سے پاکستان کے سب سے بڑے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اُس وقت کے سربراہ احمد شجاع پاشا کی اس کیس میں مداخلت کی خبریں سامنے آئی تھیں، تاہم ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں قصاص اور دیت کے قانون کا غلط استعمال کیا گیا۔

ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں بتایا کہ قتل کیے جانے والے دونوں افراد کے قانونی ورثاء کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے خون بہا لینے پر مجبور کیا۔

سی آئی اے کے سابق اہلکار نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا کہ ورثاء کو شدت پسند اسلامی سوچ سے دور رکھنے کے لیے آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے 14 مارچ کو مداخلت کرتے ہوئے مقتولین کے تمام 18 قانونی لواحقین کو اپنی حراست میں لے لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لواحقین کو خون بہا لینے پر مجبور کیا گیا: ریمنڈ ڈیوس

ڈیوس کی کتاب کے مطابق 16 مارچ کو ٹرائل سے قبل اس کیس کی پیروی کرنے والے وکیل اسد منظور بٹ ان تمام افراد سے فون پر رابطہ نہیں کرسکے، جبکہ ان لوگوں کے ہمسایوں نے بھی اسد منظور بٹ کو ان کے اچانک لاپتہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

اپنی کتاب میں ڈیوس لکھتے ہیں کہ اصل وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ کو تبدیل کرنے کے ذمہ دار بھی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا ہی تھے۔

واضح رہے کہ اسد منظور بٹ یہ مقدمہ بلامعاوضہ لڑ رہے تھے۔

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 16 مارچ کو کیس کی سماعت سے قبل رات میں آئی ایس آئی ایجنٹس مقتول کے گھر والوں کو کوٹ لکھپت جیل لے گئے جہاں ان سے اس کیس میں مذاکرات کرنے اور خون بہا لینے پر زور دیا گیا۔

کتاب میں بتایا گیا کہ اگر یہ لوگ ڈیوس کو معاف کرنے پر رضا مند ہو جاتے تو انہیں بدلے میں بھاری رقم دی جاتی جبکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کے اس فیصلے کے نتائج اگلی صبح صاف نظر آرہے تھے جب انہیں کورٹ روم کے باہر گن پوائنٹ پر وارننگ دی گئی تھی کہ وہ میڈیا کے سامنے اپنا منہ نہ کھولیں۔

مزید دیکھیں: 'ریمنڈ ڈیوس کے الزامات ریاست پاکستان پر حملہ ہیں'

امریکی جاسوس کی کتاب میں بتایا کیا گیا کہ فاضل جج نے کمرہ عدالت کو غیر متعلقہ افراد سے خالی کرالیا جبکہ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کمرے میں موجود رہے، اس کے علاوہ ان کے پیچھے بیٹھا ایک شخص امریکا کی جانب سے پاکستان میں اُس وقت کے مندوب کیمرون منٹر کو مسلسل موبائل فون سے ٹیکسٹ پیغام بھیج کر عدالتی کارروائی سے آگاہ کر رہا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی جاسوس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ قصاص اور دیت کے قانون پر انحصار کرنا ان کا پہلا انتخاب نہیں تھا۔

ریمنڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ ’اپنی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے قصاص کا قانون میرا پہلا انتخاب نہیں ہوتا، لیکن امریکی قونصل جنرل (کارمیلا کونرائے) نے اس قانون کے حوالے سے مجھے بہترین طرح سے واضح کیا‘۔

کتاب میں بتایا گیا کہ جب کارمیلا کونرائے نے انہیں بتایا کہ ان کا کیس مذہب اسلام کے تحت شرعی عدالت میں چلایا جائے گا تو وہ بے حد پریشان ہوگئے اور امریکی قونصل جنرل سے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں آرہا کہ پاکستانی میرے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں، کیا میں ایک ٹوسٹ ہوں، یہ لوگ مجھے قید خانے سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جائیں گے اور مجھے پتھروں سے مار مار کر قتل کر دیں گے‘۔

کتاب کے مطابق امریکی قونصل جنرل نے ریمنڈ ڈیوس کو یقین دلایا کہ اسلامی شرعی قانون کے تحت مرنے والے افراد کے لواحقین کو خون بہا دیا جاسکتا ہے جسے لواحقین قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اپنی آپ بیتی پر مشتمل کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے بتایا کہ انہیں قصاص اور دیت کے قانون کے بارے میں مکمل وضاحت بھی دی گئی تھی۔


یہ خبر 3 جولائی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی