نقطہ نظر

سانحہ پاراچنار: گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند

ہمارے ساتھ ہوئے سانحے پر ہمارے رہنماؤں کی خاموشی اور لاپرواہی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔

اس سال پارا چنار میں ہماری نہ کوئی عید ہوئی اور نہ کوئی چاند رات۔ پورا ملک جہاں عید کی تیاریوں میں مصروف تھا، وہاں ہم میں سے کئی لوگ یہاں اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے کفن اور ان کی قبروں پر رکھنے کے لیے موم بتیاں اور اگر بتیاں خریدنے میں مصروف تھے۔

اس وقت جب میں اپنے جذبات کو تحریر کی صورت دے رہا ہوں تب میں اپنے سامنے رکھے ٹی وی پر شوال کا چاند نظر آنے کے بعد سے مسلسل خوشیوں سے بھرپور مناظر دیکھ سکتا ہوں۔ میرے موبائل فون پر عید مبارک کے میسجز موصول ہو رہے ہیں۔

مجھے کافی مایوسی، بے بسی اور غم محسوس ہو رہا ہے۔ جنہوں نے اپنی جانوں کو کھو دیا، ان کے یتیم بننے والے بچوں اور ان کی بیوہ ہونے والی بیویوں کا سوچ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، یہ ظلم میرے آبائی شہر میں ایک بے رحمانہ حملے کے نتیجے میں ہوا جس کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

میں اپنے ہی وطن میں خود کو اجنبی محسوس کر رہا ہوں۔ مجھے میرے ہم وطنوں اور میڈیا کی مردہ دلی کا درد ان جان لیوا بم حملوں سے بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک ناقابل فہم بات ہے کہ ملک میں یوم سوگ کا اعلان کیوں نہ ہوا اور ملک میں قومی پرچم سرنگوں کیوں نہ ہوئے۔

ہمارے ساتھ ہوئے سانحے پر ہمارے رہنماؤں کی خاموشی اور لاپرواہی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ عملی طور پر ایک غیر شہری جیسا برتاؤ کیوں کیا جا رہا ہے۔ میرے شہر میں ہونے والے قتل عام پر میڈیا شور کیوں نہیں مچا رہا؟

میں جاننا چاہتا ہوں کہ پارا چنار واقعے کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا۔ کیوں کسی سیاسی شخصیت، اعلیٰ افسر یا کسی اہم شخصیت نے مرنے والوں کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کی؟

تمام تر ٹی وی چینلز پر عید کے خصوصی پروگرام نشر کیے جا رہے تھے؛ ذرا یہ تو بتایے کہ کتنے منٹ اس میڈیا نے ان خاندانوں کے لیے وقف کیے جو پولیٹیکل ایجنٹ کے دفاتر کے باہر جمع ہو کر انصاف، توجہی اور ہمدردی کے دو بول کا مطالبہ کر رہے تھے؟

ایمبولینسوں کی ناکافی تعداد کی وجہ سے لوگوں کو لاشیں اور زخمی افراد کو لے جانے کے لیے ہاتھ گاڑیوں کو استعمال کرنا پڑا۔ اگر مناسب ایمرجنسی سہولیات میسر ہوتیں تو کئی زخمیوں کی زندگیاں بچ سکتی تھی۔

وفاقی حکومت کی بے حسی کا مظاہرہ تو سب کے سامنے عیاں ہیں؛ جب ایسے واقعات پیش آتے ہیں صرف تبھی اس کی لاپرواہی مزید واضح ہو جاتی ہے۔ جس معیار کی بنیادی سہولیات ساہیوال اور گجرانوالہ جیسے چھوٹے شہروں میں بھی موجود ہیں، اس معیار کی سہولیات کی بھی پارا چنار میں شدید قلت ہے۔

وزیر اعظم لندن میں اپنی چھٹیاں مختصر کر کے یہاں کیوں نہیں آئے؟

ہنستے بستے گھروں میں اب صف ماتم بچھی ہے۔ میری ملاقات غم سے نڈھال ایک بہن سے ہوئی: "میرے پیارے بھائی، میں نے تمہارے لیے نیا جوڑا سیا تھا تا کہ تم عید کے روز دولہے کی طرح دِکھو"۔ میں نے 12 سالہ بچے کی قبر پر موجود غم میں ڈوبی ماں کو بھی دیکھا: "میرے بیٹے، ٹھیک سے سونا، تمہاری ماں کو آخری دم تک تمہارے زخم یاد رہیں گے۔"

ارد گرد ایسے مناظر دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔ میں اپنی ماں سے ملنے گیا۔ وہ جھکے سر کے ساتھ گھٹنوں کی بل بیٹھی تھیں، اور اپنے بھائی کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ ایسے ہی ایک حملے کے نتیجے میں ان کے بھائی کے جسم کے ہزاروں ٹکڑے ہو گئے تھے۔ میری والدہ کے کزن کامل حسین بھی عالم ارواح میں اب ان کے بھائی سے جا ملے ہیں، جنہوں نے گذشتہ ہفتے اپنی زندگی کھو دی۔ کامل دوسرے دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے؛ جیسے ہی پہلا دھماکہ ہوا تو وہ مدد کے لیے جائے وقوعہ کی طرف مدد کے لیے دوڑے تھے۔

میری بیوی نے مجھ سے پوچھا: "میرے خدایا! میں کہاں جاؤں؟" چند برس قبل ان کے والد جب امام بارگاہ سے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے تب انہیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ مجھے آس پاس یا تو متاثرین کی مسخ شدہ لاشیں نظر آتی ہیں یا پھر باقی ملک میں عید مناتے پاکستانی نظر آتے ہیں۔"

وزیر اعظم خود بہاولپور پہنچے اور آتشزدگی سے متاثر افراد کے لیے معاوضے کا اعلان کیا مگر افسوس کہ انہوں نے پاراچنار کو آج یاد کیا ہے۔ ان کے یہاں کا دورہ کرنے سے دہشتگردوں کو ایک مضبوط پیغام جاتا؛ خاموش رہ کر دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

جہاں پورا ملک نے ہمیں نظر انداز کیے رکھا ہے، وہاں ہم اپنی مدد آپ کرنے اور اپنے طور پر زندہ رہنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ بھلے ہی ہمارے زخم بھر جائیں اور آنسو خشک ہو جائیں لیکن کٹھن گھڑی میں اس خاموشی اور بے حسی کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ریاض علی طوری

ریاض علی طوری پاراچنار سے تعلق رکھتے ہیں اور سرگرم کارکن ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔