عمر کوٹ میں میری ہندو افطاری اور مسلم عید
عید سے ایک دن قبل میں صبح پانچ بجے کراچی سے عمر کوٹ کے لیے روانہ ہوا۔ ٹھیک 9 بجے عمر کوٹ پہنچا، جہاں میرے میزبان، ایک ہندو نوجوان، روی کمار میرے منتظر تھے۔ روی کمار سے یہ پہلی ملاقات تھی، وہ وفاقی جامعہ اردو کراچی سے جیو گرافی میں ماسٹرز کر چکے ہیں اور این جی او شعبے میں سوشل موبلائزر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
روی کمار سے ملاقات اور رسمی علیک سلیک کے بعد ہم ایک مقامی ہندو صحافی اُتم سنگراسی سے ملنے گئے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ میں روزے سے ہوں تو انہوں نے سامنے میز پر رکھے جگ اور گلاس سمیت دیگر کھانے پینے کی چیزیں ہٹا دیں اور مجھ سے معذرت بھی کی۔
ہم ان کے پاس بیٹھے عمر کوٹ میں رہائش پذیر اقلیتی برادری سے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ اُتم سنگراسی کے بزرگ والد صاحب بھی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ عمر کوٹ میں مسلم و غیر مسلم آبادی کا تناسب کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ضلع عمر کوٹ کی آبادی 11 لاکھ ہے اور ووٹرز کی تعداد پانچ لاکھ ہے۔ عمر کوٹ شہر میں غیر مسلم آبادی (ہندو اور عیسائی) کا تناسب 72 فیصد جبکہ مضافات میں50 فیصد ہے۔ کاروبار مکمل طور پر ہندو برادری کے ہاتھ میں ہے۔
پڑھیے: عمرکوٹ میں حقیقی پاکستان کی تلاش
میں نے شہر کے بارے میں مزید جاننا چاہا سو اپنے سوالوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا کہ آیا دیگر شہروں کی طرح یہاں بھی اقلیتوں کو تحفظ سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے یا نہیں؟ تو قریب بیٹھے اتم سنگراسی کے بزرگ والد صاحب بتانے لگے، 'بیٹا میں عمر کوٹ شہر میں پیدا ہو کر بوڑھا ہو گیا، آج تک مجھے کسی نے مذہب کی بنیاد پر نقصان پہنچایا نہ ہی کسی امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا۔'
یہ سن کر میں نے اخباروں میں چھپنے والی خبروں کے حوالے دیے، جن کے مطابق اس علاقے میں ہندو تاجر اور لڑکیوں کی اغوا کاری کے کئی واقعات پیش آتے ہیں۔ بابا جی کہنے لگے 'بیٹا! کیا کراچی اور لاہور سے مسلمان اغوا نہیں ہوتے؟ اگر عمرکوٹ میں ہندو تاجر اغوا ہوتے ہیں تو وہ مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ تاوان کے لیے اغوا ہوتے ہیں۔'
میں باباجی کی منطق کے سامنے لاجواب ہو گیا البتہ لڑکیوں کی اغوا کاری اور مذہب کی جبراً تبدیلی سے متعلق بابا جی بھی تشویش میں مبتلا نظر آئے۔ لیکن اُتم سنگراسی نے بتایا کہ عمر کوٹ سمیت تمام شہروں میں ایسا نہیں ہے۔ خاص طور پر مٹھی اور عمر کوٹ میں مثالی مذہبی ہم آہنگی ہے۔
اپنی گفتگو کو سمیٹنے کے بعد ہم عرفان مسیح کے گھر چلے گئے۔ عرفان مسیح عمرکوٹ میونسپل کمیٹی کا ملازم تھا جو دورانِ صفائی زہریلی گیس اور ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت کے باعث جان کی بازی ہار بیٹھا تھا۔
پڑھیے: عمر کا سات صدیاں دیکھنے والا قلعہ
عمر کوٹ کے تھر بازار میں کرسچن کالونی کے مرکزی دروازے پر عرفان مسیح کے والد نذیر مسیح چارپائی پر استراحت فرما رہے تھے۔ ہم ان کے ساتھ بیٹھے باتوں میں مصروف تھے کہ عرفان کی والدہ ارشاد بیگم بھی آ کر چارپائی کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئیں۔ بات چیت کے دوران میں نے ان سے استفسار کیا کہ عرفان مسیح کی موت اور قانونی جنگ میں پولیس و دیگر اداروں سمیت مقامی مسلمانوں کا رویہ کیسا رہا۔ بوڑھی اماں نے آبدیدہ ہو کر بتایا کہ 'بیٹا عمرکوٹ سمیت کراچی اور حیدرآباد سے مسلمانوں نے ہمارے ٹوٹے پھوٹے گھر میں آ کر تعزیت کی اور میرے بیٹے کے آخری رسومات میں بھی مدد کی۔ مخیر حضرات نے مالی تعاون بھی کیا اور پولیس بھی کیس میں ہماری مدد کر رہی ہے۔'
عرفان مسیح کے والدین کے ساتھ تعزیت کے بعد 4 بجے میزبان روی کمار مجھے لے کر اپنے گھر پہنچ گئے۔ شدید گرمی اور تھکاوٹ سے چور ہم بیٹھے ہی تھے کہ آسمان میں گھٹا ٹوپ بادل چھا گئے اور چند لمحوں میں بارش شروع ہو گئی۔ موسم اچانک ٹھنڈا ہو گیا، باتوں باتوں میں معلوم ہی نہ چلا کہ نیند نے کب اپنی آغوش میں لے لیا۔
جب آنکھ کھلی تو بارش تھم چکی تھی اور آذانِ مغرب میں 10 منٹ رہ گئے تھے۔ روی کمار کے گھر والوں نے میرے لیے افطاری تیار کی۔ اس دوران ایک اور ہندو نوجوان رمیش کمار بھی آ گئے۔ چھت پر بارش کا پانی رک گیا تھا، ہم کرسیاں لے کر چھت پر چڑھ گئے۔ میز کے ایک طرف دو ہندو اور دوسری طرف میں مسلمان تھا، ہم سب نے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگی، اتنے میں آذان ہو گئی اور ہم نے مل کر افطاری کی۔
افطاری کے بعد ہم ہوا خوری کے لیے باہر نکلے اور ایک پارک میں بیٹھ گئے۔ روی کمار نے اپنے دوستوں کو فون کیے اور چند لمحوں میں ایک بڑا مجمع بن گیا جس میں مسلم، ہندو اور عیسائی نوجوان شامل تھے۔ توانائی سے بھرپور نوجوانوں کی 4 گھنٹے پر محیط نشست میں سیاسی، سماجی و دیگر موضوعات پر طویل گفتگو ہوئی، میں بار بار انہیں کریدنے کے لیے اقلیتوں کے مسائل زیرِ بحث لانے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ ہر بار بحث کا رخ دیگر سماجی مسائل کی طرف موڑ دیتے۔
مجھے محسوس ہوا کہ دراصل یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ پاکستان میں رہنے والا ہر نوجوان، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم، ان کے مسائل مشترک ہیں، جنہیں تعلیم، عزت نفس اور اور باعزت روزگار کی ضرورت ہے۔ کم از کم عمر کوٹ کے رہائشی اقلیتی برادری کو یہ شکوہ نہیں کہ ہمیں مذہب کی بنیاد پر ظلم اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
نشست ختم ہوئی اور ہم جا کر سو گئے۔ صبح فجر کے وقت اٹھے، نماز پڑھنے کے بعد ننگے پاؤں گھاس پر چہل قدمی کے دوران نمازِ عید و دیگر کاموں کی منصوبہ کی۔ کچھ دیر بعد روی کمار ناشتہ لے کر آئے، ناشتے سے فارغ ہو کر روی کمار کا مسلمان دوست شکیل احمد مجھے اپنے ساتھ لے کر مسجد لے گیا۔ نماز عید کے بعد شکیل احمد کے گھر میں پُر تکلف دعوت پر پہنچ گئے۔ دستر خوان لگ گیا اورعبدالرحمان، شوکت مسیح اورروی کمار نے ایک ہی تھالی میں جی بھر کر کھانا کھایا۔
لکھاری وفاقی اردو یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ کے طالب علم اور فری لانس بلاگر ہیں۔ فلاحی، سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔