پاکستان

یکے بعد دیگرے حملے: پاراچنار کے عوام میں غم و غصے کی لہر

دہشت گردی کے واقعے میں بھاری جانی نقصان کے بعد پاراچنار میں عید کے روز بھی فضا سوگوار رہی۔

دو روز قبل یکے بعد دیگر دو دھماکوں کا نشانہ بننے والے پاراچنار میں پیر کے روز مظاہرہ کیا، جس میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 72 تک جاپہنچی ہے۔

دہشت گردی کے واقعے میں بھاری جانی نقصان کے بعد پاراچنار میں عید کے روز بھی فضا سوگوار رہی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق سرکاری حکام نے جمعہ کو ہونے والے دو دھماکوں میں زخمی ہونے والے مزید 5 افراد کے دوران علاج جاں بحق ہونے کی تصدیق کی، جس کے بعد دہشت گردی کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 72 تک پہنچ چکی ہے، جبکہ مزید 10 زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

پاراچنار کی مارکیٹ میں درجنوں افراد نے بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد مظاہرہ کیا، جہاں عید کی خریداری کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

مقامی انتظامیہ کے عہدیدار بشیر خان وزیر نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ جمعہ کو ہونے والے دھماکوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 69 ہوگئی ہے، جبکہ مقامی انتظامیہ مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاراچنار میں یکے بعد دیگرے 2 دھماکے،41 افراد جاں بحق

کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار کی اسی مارکیٹ میں رواں سال دو بم دھماکے ہوچکے ہیں۔

قبل ازیں 22 جنوری کو پاراچنار میں ریموٹ کنٹرول دھماکے کے نتیجے میں 25 افراد جاں بحق جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والی کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

31 مارچ کو بھی پاراچنار کے نور بازار میں دھماکے کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔

جمعہ کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

پاراچنار کے سماجی کارکن مزمل حسین نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’ہم طالبان کی جانب سے مسلسل ہدف بن رہے ہیں، لیکن حکومت ہمیں تحفظ فراہم کرنے میں تاحال ناکام ہے۔‘

انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جنوری اور مارچ میں حملوں کے بعد شہر کی مارکیٹوں میں چیک پوائنٹس اور بیریئرز لگائے گئے تھے۔

مزمل حسین نے کہا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ فوج اور دیگر پیرا ملٹری فورسز کی چیک پوسٹوں کے باوجود کوئی بارود سے بھری گاڑی کیسے لاسکتا ہے، اس بات کی کوئی منطق نہیں ہے اور اسی کے خلاف ہم احتجاج کر رہے ہیں۔‘

جمعہ کے روز ہی کوئٹہ میں بھی بم دھماکے کے نتیجے میں 10 پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد جاں بحق اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری ’داعش‘ اور ’جماعت الاحرار‘ دونوں نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

جمعہ کی شام کو ہی کراچی میں فائرنگ کے نتیجے میں 4 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔