تھر کول منصوبے میں ڈمپرز چلانے والی ’خواتین‘ ڈرائیورز
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ تھر کول منصوبے پر اس وقت 16 خواتین ڈمپر ڈرائیور کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر تاج حیدر نے کمیٹی کو بتایا کہ سندھ کے علاقے تھر میں 'تھر کول منصوبے' پر اس وقت 16 خاتون ڈرائیورز روایتی لباس میں ملبوس ہو کر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
پاکستان ریلوے کی کارکردگی کے حوالے سے پی پی پی کے سینیٹر نے کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران مختلف مقامات پر 281 حادثات ہوئے جن میں 100 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جبکہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا وہ ریلوے اسٹیشن جو تاریخ کا حصہ بن گیا
تھر کول منصوبے کے حوالے سے انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کو اجلاس میں بتایا کہ سندھ حکومت کے اشتہار پر ایک ہزار سے زائد خواتین نے بطور ڈمپر ڈرائیور ملازمت کے لیے درخواست جمع کرائی جن میں سے 16 لڑکیوں کو ملازمت پر رکھ لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ملازمت حاصل کرنے والی 16 خواتین ڈمپر ڈرائیورز کو چینی انسٹرکٹرز ڈمپر چلانے اور اس کے استعمال کی بہترین تربیت دے رہے ہیں۔
انہوں نے خواتین ڈرائیور کی مہارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خواتین ڈرائیورز 100 میٹر گہرائی سے مٹی نکال رہی ہیں جبکہ اپنے کام کے دوران یہ خواتین روایتی گھاگھرے اور چوڑیاں پہن کر ڈمپر چلاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تھر کے پہلے بجلی گھر منصوبے کا افتتاح
اجلاس میں گزشتہ تین سال کے دوران ریلوے حادثات کی تفصیل قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئیں جس کے مطابق جنوری 2014 سے جون 2017 تک پاکستان میں مختلف مقامات پر 281 ریلوے حادثات ہوئے جن میں 106 افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ ان حادثات کا شکار ہونے والے 454 افراد زخمی بھی ہوئے۔
حکام نے بتایا کہ ملک بھر میں 3 ہزار 389 میں سے 1 ہزار 875 ریلوے کراسنگز پر عملہ تعینات ہی نہیں ہے اور کراسنگز میں سے 550 حساس جبکہ 143 انتہائی حساس قرار دی جاچکی ہیں۔
حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 45 سال تک کی عمر کے ٹرین ڈرائیورز کی آنکھوں کا ٹیسٹ ہر 3 سال بعد کیا جاتا ہے جبکہ ایسے ڈرائیورز جن کی عمر 45 برس سے زائد ہے ان کی آنکھوں کا ٹیسٹ ہر سال کیا جاتا ہے۔