جے آئی ٹی نے تیسری کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی
اسلام آباد: پاناما پیپرز کے دعوؤں کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے کیس کی تیسری کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔
جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے رپورٹ پیش کی۔
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ مذکورہ رپورٹ کا جائزہ لے گا۔
سپریم کورٹ میں پاناما جے آئی ٹی عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کوئی ریکارڈ فراہم کیا؟
مزید پڑھیں: پاناما تحقیقات: حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش
جس پر جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے جواب میں کہا کہ ایس ای سی پی نے کچھ ریکارڈ فراہم کیا جبکہ ایف بی آر کو تین مرتبہ ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا گیا لیکن انہوں نے ایک مرتبہ بھی جے آئی ٹی کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریکارڈ کی عدم فراہمی پر اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ یہ معاملہ قابل قبول نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ اداروں کا کام ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون کریں۔
اٹارنی جنرل نے یقین دلایا کہ جے آئی ٹی کو جو ریکارڈ چاہیے وہ بتائیں، اس ریکارڈ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ یہ ریکارڈ کہاں ہے، کیا یہ غائب ہوگیا ہے یا پھر چوری ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی پر اعتراض:حسین نواز کی درخواست پر 29 مئی کو سماعت
اعجاز الاحسن نے اداروں کے تعاون پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا ریکارڈ کی ٹیمپرنگ کی انکوائری شروع ہوئی؟ اور اس میں کتنا وقت لگے گا۔
اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ایس ای سی پی میں ریکارڈ کی ٹیمپرنگ کی انکوائری شروع ہو چکی ہے جو چند ماہ میں مکمل کر لی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا ایف بی آر مخصوص وقت کا ریکارڈ رکھتا ہے، ایف بی آر کو نوٹس دیکر عدالت بلایا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف بی آر نے یہ بات عدالت کو نہیں بتائی، اگر ضرورت پڑی تو چیئرمین ایف بی آر کو بھی عدالت میں طلب کریں گے۔
فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ توسیع پر ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تینوں سربراہ اچھی ایکٹنگ کر رہے ہیں۔
ایک اور خبر پڑھیں: جے آئی ٹی پر اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام
جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر حسین نواز کی تصویر لیک کے ذمہ دار کا نام نہیں بتایا۔
عدالت نے اگلی سماعت میں اٹارنی جنرل کو حسین نواز تصویر لیک کے حوالے سے حکومتی موقف پیش کرنے اور جے آئی ٹی سربراہ کو ایف بی آر سے متعلقہ دستاویزات بھی پیش کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
عدالت نے جے آئی ٹی کو اپنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت 10 جولائی تک ملتوی کر دی۔
جے آئی ٹی سربراہ کے خلاف درخواست
ادھر پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء کی تعیناتی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر جمع کرائی گئی ہے۔
واجد ضیاء کے خلاف درخواست پروفیسر وحید نامی شخص نے جمع کرائی، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ واجد ضیاء کو جے آئی ٹی سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
کوئز: آپ پاناما کیس کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟
درخواست گزار نے استدعا کی کہ کسی ایسے شخص کو جے آئی ٹی کے سربراہ کے طور پر تعینات کیا جائے جو لوٹی گئی رقم کو واپس پاکستان لانے کی قابلیت نہیں رکھتے۔
درخواست میں کہا گیا کہ جیسے واجد ضیاء شریف خاندان کا احتساب اور ان کی رقومات کی واپسی میں دلچسپی نہیں رکھتے جبکہ ان کا شریف خاندان کے ساتھ جانبدرانہ رویہ ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ نے بااختیار ہونے کے باوجود ریکارڈ ٹیمپرنگ پر کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑا۔
یہ خبر بھی دیکھیں پاناما جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش
درخواست میں بتایا گیا ہے کہ بطور جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے وزیر اعظم سے قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم اور یونس حبیب کی جانب سے دی گئی رقوم کے علاوہ کچھ بھی دریافت نہ کیا اور نہ ہی ان کی تحقیات کا رخ مستند ریکارڈ کی جانب ہے۔
پروفیسر وحید نے استدعا کی کہ شریف فیملی کی جانب سے بیرون ملک بنائے گئے غیر قانونی اثاثوں کو فروخت کرکے رقم قومی خزانے میں واپس لائی جائے کیونکہ این آر او کیس میں عدالت نے بیرون ملک موجود رقوم واپس لانے کا حکم صادر کیا تھا۔
مریم اورنگزیب اور پی ٹی آئی رہنما کے درمیان تلخ کلامی
ڈان نیوز کے مطابق عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ شریف خاندان کے افراد پاناما کیس میں ملزم کے طور پر نہیں بلکہ گواہ کی حیثیت سے پیش ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے تمام افراد سے ان کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے سوالات کیے جارہے ہیں کیونکہ پاناما کیس میں اب تک جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہے وہ ان کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے ہوئی ہے۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر نشاندہی کی کہ وزیر اعظم کا نام پاناما پیپرز میں شامل نہیں ہے، ان سے کسی کمیشن یا کسی 'کک بیک' کے حوالے سے پوچھ گچھ نہیں کی جارہی بلکہ ذاتی کاروبار کے بارے میں دریافت کیا جارہا ہے۔
مریم اورنگزیب نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر احتساب سے بھاگنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکنان جھوٹ بولتے ہیں۔
اسی دوران مریم اورنگزیب اور پی ٹی آئی کی خواتین رہنما کے درمیان روسٹرم کے حصول کے لیے تلخ کلامی بھی ہوئی۔