ضبط کیے گئے مکانات پر نیب کے افسران کا قبضہ
ملتان: قومی احتساب بیورو (نیب) کے کچھ افسران ادارے میں جاری کیسز کی وجہ سے ضبط کیے گئے مکانات میں رہائش پذیر ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محسن ہارون، جو واپڈا ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ڈبلیو ای سی ایچ ایس) کے حوالے سے ہونے والے اربوں روپے کی کرپشن کے تفتیشی افسر ہیں، ایسے ہی مکان میں رہائش پذیر ہیں۔
27 جون 2016 میں نیب حکام کی جانب سے احتساب عدالت میں پیش کیے گئے عبوری ریفرنس میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ اس اسکینڈل کے مرکزی ملزم ڈبلیو ای سی ایچ ایس کے سابق سیکریٹری سعید احمد خان کے 12 مکانات ضبط کئے گئے تھے۔
ضبط کیے جانے والے مکانات میں سعید احمد خان کے زیر استعمال احمد ویلاز بھی شامل تھا جس میں اس وقت محسن ہارون رہائش پذیر ہیں، جبکہ ضبط کیے جانے والے ایک اور مکان پر ڈپٹی ڈائریکٹر قیصر محمود قیام پذیر ہیں، جو نیب کے انٹیلی جنس ونگ کے انچارج ہیں۔
سعید احمد خان نے یہ مکانات اپنی بیٹی ردا سعید اور بیٹے دانیال سعید کے لیے خریدے تھے، قانون سے بچنے کے لیے انھوں نے یہ مکانات اپنی بہن نازیہ ضیا اور کیس کے دوسرے ملزم واجد رسول کی بہن کے نام کردیئے تھے، جو سعید خان کا فرنٹ مین تصور کیا جاتا ہے، تاہم واجد رسول نے ان مکانات کی ملکیت سے انکار کیا۔
27 جون 2017 کو سابق ڈائریکٹر جنرل نیب (ملتان) فاروق ناصر اعوان نے کیس کے ملزم کے 18 مکانات کو ضبط کرنے کا حکم دیا تھا تاہم اس فہرست میں احمد ویلاز کے دو مکانات شامل نہیں تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ واجد رسول کے ایک کاروباری شراکت دار اللہ دتہ نے ڈبلیو ای سی ایچ ایس فیز تھری میں زمین کے مالک کے ساتھ متعدد خریداری کے معاہدے کیے تھے، سعید خان نے کمرشل اور رہائشی فائلز واجد رسول کے نام جاری کیں تاہم انہیں سوسائٹی میں ٹرانسفر نہیں کیا گیا، واجد رسول پر ان فائلز کی فروخت سے کروڑوں روپے کمانے کا الزام ہے۔
تحقیقات کے دوران نیب نے اللہ دتہ کو ان کے نام پر جاری ہونے والے کمرشل فائلز کے بقایا جات ادا کرنے کو کہا تھا جسے اللہ دتہ نے منظور کیا اور 80 لاکھ روپے کی پہلی قسط کا چیک نیب حکام کے حوالے کیا، بعد ازاں اللہ دتہ نے اس چیک کے بدلے میں کیس کی ادائیگی کو رکوادیا اور نیب کو بتایا کہ واجد رسول اس سارے معاملے میں فائدہ حاصل کرنے والا ہے اس لیے تمام رقم اس سے وصول کی جائے، جس کے بعد نیب نے اللہ دتہ کو گرفتار کرلیا۔
بعد ازاں نیب نے واجد رسول کی جانب سے ان کے نام پر جاری کی جانے والی فائلز کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست کو منظور کیا، تاہم انھوں نے ان فائلز کے بقایاجات کی ادائیگی کے حوالے سے بات نہیں کی جو سعید احمد خان نے اللہ دتہ کے ساتھ خریداری کے معاہدوں کی صورت میں اس کے نام کی تھیں۔
نیب آرڈیننس کی شق 12 کے مطابق نیب چیئرمین اور احتساب عدالت کسی جرم کے ملزم کی جائیداد کو ضبط کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر محسن ہارون سے مذکورہ معاملے پر موقف جاننے کی کوشش کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم وہ دستیاب نہ ہوسکے جبکہ ان کے ساتھی قیصر محمود کا کہنا تھا کہ ضبط کیے گئے مکان میں قیام کرنا غیر قانونی نہیں۔
دوسری جانب نیب ملتان کے ڈائریکٹر جنرل عتیق الرحمٰن کا کہنا تھا کہ مکانات ملزم کی ملکیت نہیں ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ جائیداد عدالت کے حکم پر ضبط کی گئی ہے اور عدالت ہی کی جانب سے نامزد کیے جانے والے وصول کنندہ کے کنٹرول میں ہے، اور اس میں جو بھی رہائش اختیار کرے گا وہ وصول کنندہ کو اس کا کرایہ ادا کرے گا، ان مکانات میں نیب کا کوئی بھی افسر رہائش پذیر نہیں‘۔
ادھر سعید احمد خان کے وکیل محمد نعیم خان نے دعویٰ کیا ہے کہ عدالت نے ان دو مکانات کو ضبط کرنے کا حکم نہیں دیا تھا جس میں نیب افسران رہائش پذیر ہیں۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ نیب کی جانب سے عدالت میں جائیداد کو ضبط کرنے کے لیے فراہم کی گئی فہرست میں یہ دونوں مکانات شامل نہیں تھے اس کے باوجود ان کو کیسے ضبط کیا جاسکتا ہے اور ان میں نیب افسران کی رہائش کا کیا جواز ہے۔
انھوں نے کہا کہ نیب کے چیئرمین اور ملتان کے ڈی جی کے پاس جائیداد کو ضبط کرنے کا اختیار نہیں ہے، جیسا کہ ریفرنس عدالت میں پیش کیا جاچکا ہے، انھوں نے کہا کہ ایسے حکم کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ ان کی شکایت پر احتساب عدالت کے جج نے مکان میں نیب افسران کی موجودگی کی جانچ کے لیے ایک بیلف بھیجا تھا، انھوں نے کہا کہ بیلف نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ دونوں نیب افسران نے ان مکانات پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے اور نیب آرڈینس کی شق 9 کی خلاف ورزی کی ہے‘۔
علاوہ ازیں نیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹاف احمد ممتاز باجوہ ایگزیکٹو انجینئر عمارات غلام عباس ورک کی رہائش گاہ میں مقیم ہیں۔
غلام عباس ورک کا کہنا تھا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان کی رہائش گاہ میں احمد ممتاز باجوہ کے قیام پر سوال اٹھائے جبکہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
احمد ممتاز باجوہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ڈبلیو ای سی ایچ ایس میں نیب کے 4 افسران قیام پذیر ہیں۔
یہ رپورٹ 19 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی