وہ دن شدید ناگواریت میں گزرتا تھا جب دروازے پر دستک ہوتی اور سامنے ڈاکیا کھڑا آپ کا نام با آواز بلند پوچھتا اور ہاتھ میں ایک دو لفافے پکڑا کر چلتا بنتا۔ لفافے ہاتھ میں آتے ہی غصے کا پہلا اظہار دروازے کا زور سے بند کرنا ہوتا تھا۔
لاؤنج میں دیوار پر لگے ایک مخصوص کیلنڈر کی پشت پر وہ لفافے پھنسانے کا مقصد یہی ہوتا تھا کہ شام کو جب آپ گھر آئیں تو اپنی ڈاک دیکھ لیں۔ ورنہ روز ہی پوچھتے رہتے تھے کہ کیا میرا کوئی خط آیا؟
یہ سوال انتہائی برا لگتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم نے آپ کے خوشبو سے بھرے خط پھاڑ کر کہیں دفنا دیے ہوں یا جلا دیے ہوں۔ جب تک وہ خط کا لفافہ دیوار سے ٹیک لگائے نظر آتا رہتا دل میں پھانس سی چھبتی رہتی۔
اور پھر شام کو گھر آتے ہی بنا ہاتھ منہ دھوئے ان خطوں کے لفافے پھاڑتے ہوئے آپ کے چہرے کی وہ دھیمی دھیمی مسکراہٹ میرے دل کو جلا کر راکھ کر دیتی۔ اف کیا مسکرا مسکرا کر ہر سطر پڑھی جاتی۔
حیرت کی بات ہے کہ کبھی ان خطوں کا جواب دیتے میں نے آپ کو نہیں دیکھا لیکن بہرحال، جواب جاتا ہوگا تب ہی تو یہ سندیسے آتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے کوئی جلن تھی، بس دل میں کسک سی اٹھتی تھی کہ ہمیں تو کوئی خط نہیں لکھتا۔ لیکن ایک بار ایسا غصہ آیا کہ میں نے لکھ ہی ڈالا۔ پوری رات لگائی تھی، کئی بار روئی بھی، شکوے بھی کیے، آپ کی شکایت بھی کی، بھلا اب کوئی بڑا ہو تو اس کے بڑے کو ہی شکایت کی جائے گی ناں۔
ہاں وہ الگ بات ہے کہ جب دن چڑھا تو غصہ بھی ان بادلوں کی طرح بھانپ بن کر اڑ گیا جو برسنے کی دھمکیاں رات بھر دیتے ہیں لیکن برسے بغیر نکل جاتے ہیں۔ رائٹنگ ٹیبل پر پڑا وہ آٹھ صفحات کا خط پھاڑ کر کوڑے دان میں ڈال دیا اور سوچا کہ کیا بے وقوفی کرنے چلی تھی جس کی شکایت لگانے چلی تھی وہ تمہارے ابا اور جن سے لگانے کی سوچی وہ تمہارے تایا ابا۔
یہ خط نما مضمون چلا بھی جاتا تو سبکی ہی ہونی تھی، بھائی نے بھائی ہی کی حمایت کرنی تھی۔ ارے وہ خط تھوڑی تھا، پورا شکایت نامہ تھا۔ بہت معذرت، آج بتا رہی ہوں، آپ کو تو تب پتہ لگتا جب کویت سے آپ کے بھائی آپ کو اگلے خط میں لکھتے کہ تمہاری بیٹی کی چٹھی آئی تھی۔
صرف یہی نہیں، اور بھی بہت سی جگہوں پر دل کی نرم مٹی پر راکھ ڈالتی تھی میں۔ جب کسی محفل میں جانا ہوتا اور سننے کو ملتا کہ تم لوگ تو آتے نہیں، ماموں ہی ہر بار عید پر ہمیں یاد رکھتے ہیں۔
اس محفل میں معلوم ہوتا کہ عید کے پہلے دن آپ نے کتنی رشتے داریاں بھگتائیں اور اس روز تو خون کھول جاتا جب عید کے تیسرے روز نانی اماں عید کے پکوانوں سے سجے دسترخوان پر بیٹھنے سے قبل آپ کے حصے کا کھانا ڈبوں میں بھرتیں اور کہتیں کہ جاتے ہوئے یہ لازمی لے کر جانا، آیا تھا میرا بیٹا عید کے پہلے دن بڑی باتیں کر کے گیا لیکن کھانا نہیں کھایا کہہ رہا تھا کہ پیٹ بھرا ہوا ہے۔ بڑا نیک بچہ ہے میرے سارے دامادوں میں یہی ایک ایسا ہے جو مجھے بیٹوں سے بڑھ کر ہے۔
نانی کہتی جائیں اور میں اماں کو کن انکھیوں سے دیکھے جاؤں کہ لو بھلا کیسے نمبر بنائے، اپنے بیٹی بھیجی عید کے تیسرے دن، خود حاضری پہلے دن دے کر فیورٹ داماد کا ٹائٹل اپنے نام کروا لیا۔
رات گھر واپسی ہوتی تو میں آپ کو کہتی کہ نانی اماں نے کھانا بھیجا ہے آپ کے لیے، اور آپ گئے تھے کیا؟ تو میری طرف دیکھے بغیر جواب آتا 'ہممم۔۔۔۔' اس ہممم سے بڑی چڑ ہوتی تھی مجھے، اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ بات تمام۔
چڑ تو مجھے ہر اس اتوار کو بھی ہوتی تھی جب امی واشنگ مشین لگا لیتیں اور میں بالٹیاں بھر بھر کر کپڑے ڈالنے اوپر چھت پر جاتی۔ صبح سے شام تک یہ ہوتا رہتا، ڈھیروں کپڑے دھلتے اور سوکھتے جنہیں میں ایک چارپائی پر جمع کرتی جاتی۔ جیسے ہی سانس لینے میں اور امی بیٹھتے اور سوچتے کہ اب اوپر سے کپڑے لا کر انہیں تہہ کریں اور الماریوں میں پہنچائیں، تو اوپر جانے پر پتہ لگتا کہ آپ نے سارے کپڑے تہہ کر دیے اور اب پودوں کو پانی دیا جا رہا ہے۔