’خطے کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان پالیسی کی تشکیل‘
واشنگٹن: امریکی ڈیفنس سیکریٹری جیمس میٹس نے کانگریس کے پینل کو بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان کی صورت حال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری دشمنی کے اثرات کو بھی ’افغان پالیسی‘ میں شامل کرنا چاہیے۔
جیمس میٹس کا کہنا تھا کہ وہ جلد نئی پالیسی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیش کریں گے اور جس میں افغانستان میں امریکی فوج میں اضافے کی تجویز بھی ہوگی۔
ڈیفنس سیکریٹری کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے علاقائی حکمت عملی کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے اثرات نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہورہے ہیں بلکہ یہ جنوبی اور وسطی ایشیا کی سیکیورٹی کے لیے بھی اہم ہے۔
انھوں نے ہاؤس آرم سروسز کمیٹی کو بتایا کہ ’اس حوالے سے ہم علاقائی حکمت عملی پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں، ہم پاکستان اور بھارت، پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات کو غور سے دیکھ رہے ہیں، ظاہر ہے کہ ایران اور تمام جنوبی ایشیا کے علاقے کو مدنظر رکھا جارہا ہے‘۔
جمیس میٹس کا کہنا تھا کہ ’علاقائی حکمت عملی‘ اس جغرافیائی حقیقت کے ساتھ جڑی ہے جہاں سے یہ دشمن جنگ کررہے ہیں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ صرف افغانستان سے نہیں ہیں‘۔
امریکی میڈیا نے اس بات کی امریکی حکام کے ان دعوؤں کے حوالے سے یوں تشریح کیا ہے کہ جن میں دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ طالبان، خاص طور پر حقانی نیٹ ورک اب بھی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں افغانستان میں حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں استعمال کررہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے فاٹا سے دہشت گردوں کی تمام پناہ گاہیں ختم کردی ہیں اور حقانی نیٹ ورک اب افغانستان منتقل ہوگیا ہے جہاں وہ اپنے بیسز کو منصوبوں اور حملوں کے لیے استعمال کررہا ہے۔
لیکن امریکی ڈیفنس سیکریٹری میٹس نے زور دیا کہ افغانستان اکیلا اس دہائیوں سے جاری لڑائی کو ختم نہیں کرسکتا جس سے یہ ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ’ اگر ہم افغانستان کو الگ تھلگ کرکے دیکھیں تو ہمیں بہت سے ایسی چیزیں ملیں گی جن میں کمی موجود ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت کے بغیر جو خلاء پیدا ہونے کے باعث مسائل سامنے آئے تھے، جو 9\11 میں تجربے میں آئے ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں برقرار نہیں رہنے چاہیے، یہ ہمارے گھروں میں بسیرا کرنے کے لیے پہنچ سکتے ہیں‘۔
جمیس میٹس، جو ریٹائر فور اسٹار جنرل ہیں، کا کہنا تھا کہ وہ جو پالیسی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھیجیں گے اس میں افغانستان میں تشدد کو کم کرنے کے لیے امریکی فوج میں اضافے کی تجویز بھی شامل ہے، لیکن انھوں نے میڈیا میں آنے والی ان خبروں کو سختی سے مسترد کیا جن میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ پیٹاگون 50 ہزار اضافی فوج افغانستان میں تعینات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تاہم میڈیا میں یہ تجویز بھی رپورٹ ہوئی تھی کہ نئی حکمت علمی کے تحت مزید 5 سے 10 ہزار فوجی تعینات کیے جاسکتے ہیں۔
جیمس میٹس نے بتایا کہ اس وقت افغانستان میں 10 ہزار کے قریب امریکی فوجی تعینات ہیں، زمین پر موجود کمانڈر نے اضافی فوج مانگی ہے اور یہ صدر سے جاری بات چیت میں انہیں بتادیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ 14 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی