پی ٹی آئی 3 نکات پر عدالت کو مطمئن کرے، سپریم کورٹ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اتھارٹی کے تحت فنڈز کے حوالے سے اختیار رکھتا ہے، الیکشن کمیشن کے اختیارات پر سمجھوتا نہیں ہوگا، غیر ملکی امداد کی وصولی، فنڈنگ کے ذرائع اور رقوم کا آڈٹ، وہ تین نکات ہیں جس پر پی ٹی آئی کو عدالت کو مطمئن کرنا چاہیے۔
عمران خان کے خلاف حنیف عباسی کی دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ غیر ملکی فنڈنگ پر دلائل تفصیل سے سن چکے ہیں، کچھ سوالات کے جواب چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ زیادہ ایشو آرٹیکل کی شق 6/3 کے حوالے سے ہے، کیا یہ درست ہے کہ کچھ فنڈز ان سیکشن کے تحت ممنوع ہے، نعیم بخاری کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی فنڈز ممنوع نہیں ہیں۔
جس پرالیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستی نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف نے اپنے اثاثوں میں غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے کبھی نہیں بتایا، تحریک انصاف نے بیرون ملک فنڈنگ نہ لینے کا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرا رکھا ہے۔
مزید پڑھیں: غیر ملکی فنڈنگ کیس: الیکشن کمیشن کا دائرہ کار چیلنج
انھوں نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس کی شق 6/3 میں یہ واضح ہے کہ فنڈنگ ممنوع ذرائع سے نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن یہ کیسے طے کرتا ہے کہ یہ فنڈز ممنوع ہیں یا نہیں، جس پر انور منصور نے کہا کہ جمع کروائی گئی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد یہ طے کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مہمانوں کی مہمانداری، جلسہ اور دیگر اخراجات پر کیا الیکشن کمیشن نوٹس لے سکتی ہے، جس پر انور منصور نے کہا کہ جب تک از خود نوٹس کا اختیار نہ ہو الیکشن کمیشن اپنے طور پر یہ جانچ پڑتال نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس انتظامی اختیارات ہیں یا عدالتی اختیارات ہیں جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتظامی امور کے اختیارات ہیں، الیکشن کمیشن اور ٹرائبیونل میں فرق ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل انور منصور کے دلائل ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستی نے دلائل کا آغاز کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سیاسی جماعت خود الیکشن کمیشن کو بتاتی ہے کہ فنڈنگ کہاں سے آئی ہیں، جس الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ فنڈنگ کے تمام ذرائع ظاہر کرے، بڑا سوال تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے بیان حلفی میں ممنوع و غیر ممنوع غیر ملکی فنڈنگ کا ذکر تک نہیں کیا، اس بیان حلفی کو لیکر آرٹیکل 62/63 کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس:الیکشن کمیشن کاسماعت جاری رکھنے کا فیصلہ
اس موقع پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ فنڈز دینے والوں کا کہیں نام نہیں تو کہیں ایڈریس، پی ٹی آئی کی تفصیلات میں مکمل تفصیلات نہیں دی گئی۔
انور منصور نے کہا کہ تمام تفصیلات دی گئی ہیں، جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ سوال اٹھایا کہ کیا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو پی ٹی آئی نے ڈونرز کی مکمل فہرست دی ہے، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے تو دی گئی تفصیلات پر رپورٹ تیار کرنا ہے، تارکین وطن کے علاوہ بھی اربوں ڈالر کے فنڈ دیئے گئے ہیں۔
اکرم شیخ نے دعویٰ کیا کہ کئی ارب ڈالر پی ٹی آئی کو ممنوع ذرائع سے ملے، یادیو سے ملتے جلتے ناموں کو پی ٹی آئی سے کیا دلچسپی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریکارڈ میں یادیو سے ملتا جُلتا کوئی نام نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اُمید ہے آپ سپریم کورٹ کے دائرہ کار پر سوال نہیں اُٹھائیں گئے، جس پر انور منصور نے کہا کہ اب کسی صورت نہیں اُٹھائیں گئے، تاہم الیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے دائرہ اختیار اور ازخود نوٹس کے اختیار کو تسلم کیا۔
پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار محدود وقت کے لیے ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی نااہلی: درخواست پر آئندہ ہفتے سے سماعت کا آغاز
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت یا ٹربیونل نہیں، الیکشن کمیشن اتھارٹی کے تحت فنڈز کے حوالے سے اختیار رکھتا ہے، الیکشن کمیشن کے اختیارات پر سمجھوتا نہیں گا۔
انور منصور نے کہا کہ پی ٹی آئی کو تمام فنڈنگ بذریعہ بینک ملتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس بات کے آپکے پاس کیا شواہد ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم ممنوع فنڈنگ تحقیقات کے لیے معاملہ الیکشن کمیشن بھیج سکتے ہیں، اگر الیکشن کمیشن عدالت کے دیئے گئے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے تحقیقات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں دے تو آپکی رائے کیا ہوگی، غیر ملکی امداد کی وصولی، فنڈنگ کے ذرائع اور رقوم کا آڈٹ، پی ٹی آئی ان 3 نکات پر عدالت کو مطمئن کرے۔
جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔