پاناما کیس: 'حکمران جماعت 1997 جیسا منصوبہ بنا رہی ہے'
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اعتزاز احسن نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) پر سپریم کورٹ کے خلاف '1997 جیسا منصوبہ' بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فیصلہ حکومت کے حق میں نہ آیا تو لیگی وکلاء کمرہِ عدالت میں شور شرابہ کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 1997 میں سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران لیگی کارکنوں نے عدالت پر دھاوا بول دیا تھا اور دیوار پھلانگ کر کمرہ عدالت میں داخل ہوگئے تھے، اُس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اعتزاز احسن نے کہا 'میرے پاس اطلاعات ہیں کہ لیگی وکلاء کی ایک بڑی تعداد سپریم کورٹ میں جاکر ہنگامہ آرائی کرسکتی ہے'۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ پاناما لیکس کی انکوائری کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے وکلاء کو ساتھ لے کر جانا منع ہے، لہذا ان کی منصوبہ بندی ہے کہ کسی طرح سپریم کورٹ پر حملہ کرکے ججز کو متنازع بنایا جائے۔
اس سوال پر کہ اگر جمعرات (15 جون) کو 14 گھٹنے تک وزیراعظم نواز شریف سے تفتیش کی گئی تو کیا اس پر بھی کوئی شور شرابے کا خطرہ ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ 14 سے 15 گھنٹوں کی اب ضرورت نہیں، یہ معاملہ ایک گھنٹے کے اندر ہی نمٹایا جاسکتا ہے۔
پی پی پی رہنما نے کہا کہ 'میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ یہ 4 دن کا کیس ہے اور 5ویں دن اس کا فیصلہ ہونا چاہیے اور اب جے آئی ٹی نواز شریف سے صرف یہی سوال کرے گی کہ کہاں ہے سب ریکارڈ جس کا انھوں نے پارلیمنٹ میں ذکر کیا تھا؟'
گذشتہ روز جے آئی ٹی کی جانب سے ریکارڈ میں تبدیلی کے انکشاف پر بات کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ چند روز سے یہ خبریں گردش میں تھیں کہ کچھ اہم دستاویزات لاہور سے اسلام آباد پہنچائی گئی ہیں جن میں تبدیلی کی جارہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ جے آئی ٹی نے ریکارڈ میں تبدیلی کرنے والے ادارے کا نام نہیں بتایا، لیکن سرپم کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں تمام تر تفصیلات موجود ہیں۔
انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جے آئی ٹی کی کارروائی کو پبلک کیا جائے تاکہ سب کچھ عوام کے سامنے آسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ پبلک نہ ہوئی اور اس ساری کارروائی کو بند کمرے میں ہی کیا گیا تو فائدہ وزیراعظم نواز شریف کو ہی ہوگا جو اپنی صاحبزادی مریم نواز کو بچانے کے چکر میں خود پھنس چکے ہیں'۔
پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ 'اس وقت مسلم لیگ (ن) کے پاس جے آئی ٹی کے سوالات کے جوابات نہیں اور اب صورتحال اتنی خراب ہے کہ بس امپائر کی انگلی اٹھنا باقی ہے'۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ میں فوٹو لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی درخواست پر پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ مختلف اداروں کا ریکارڈ تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کے حوالے کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جا رہا ہے۔
سماعت کے دوران جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو تصویر لیکس معاملے پر رپورٹ پیش کی، جس کا ججز نے جائزہ لیا۔
جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیکس سے متعلق بیشتر الزامات مسترد کردیے ہیں۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 15 جون کو وزیراعظم کو طلب کرلیا، جس کا سمن وزیراعظم نواز شریف کو موصول ہوچکا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کی جانب سے سمن موصول ہونے کے بعد پارٹی رہنماؤں اور قانونی مشیروں سے مشاورت کی گئی جہاں سمن کی تعمیل کرتے ہوئے پیش ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز پانچ مرتبہ جے آئی ٹی کےسامنے پیش ہوچکے ہیں جبکہ چھوٹے صاحبزادے حسن نواز دومرتبہ پیش ہوئے، اس کے علاوہ نیشنل بینک کے سربراہ سمیت دیگر بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔
پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل
یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔
اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔
جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔
جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ
یاد رہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔
حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
بعدازاں حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر لیک ہوئی جس پر انھوں نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
یہ بھی پڑھیں:فوٹو لیک: تحقیقات کیلئے حسین نواز کا سپریم کورٹ سے رجوع
خواجہ حارث ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر درخواست میں حسین نواز نے کہا کہ تصویر لیک کر کے آئندہ طلب کیے جانے والوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں حسین نواز نے موقف اختیار کیا تھا کہ تصویر کا لیک ہونا اور ویڈیو ریکارڈنگ ضابطہ اخلاق اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔