پاکستان

جے آئی ٹی پر اعتراض ٹیم کے خلاف مہم کا حصہ قرار

ویڈیو ریکارڈنگ پہلی بار نہیں ہورہی ہے بلکہ مختلف جے آئی ٹیز کی ویڈیو ریکارڈنگز میڈیا پر آ چکی ہیں، جے آئی ٹی کی رپورٹ

سپریم کورٹ کی جانب سے پانامالیکس کیس کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی جس میں وزیراعظم کے صاحبزادے حسین کے اعتراضات کو ٹیم کے خلاف مہم کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حسین نواز کے الزامات جے آئی ٹی کے خلاف مہم کا حصہ ہیں اور ان الزامات کا مقصد تفتیش میں رکاوٹ ڈالنا ہے تاکہ جے آئی ٹی مقررہ مدت میں اپنا کام مکمل نہ کر سکے۔

جے آئی ٹی نے رپورٹ میں اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیم کے اراکین کو بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر بدنام کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے دو اراکین پر اعتراض کیا تھا جس کو سپریم کورٹ نے رد کرتے ہوئے تفتیش جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیے:جے آئی ٹی کے دو ارکان پر حسین نواز کا اعتراض مسترد

حسین نواز کی جانب سے ویڈیو تفتیش پر کیے گئے اعتراض کو رد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تحقیقات کی ویڈیو بنانا ایس او پی کا حصہ ہے۔

جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ پہلی بار نہیں ہورہی ہے بلکہ مختلف جے آئی ٹیز کی ویڈیو ریکارڈنگز میڈیا پر آ چکی ہیں۔

رپورٹ میں قانونی شہادت کی دفعہ 164 کا بھی حوالہ دیا گیا اورحالات کے تناظر میں ویڈیو ریکارڈنگ لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ ریکارڈنگ پر پابندی کی کوئی عدالتی مثال نہیں ملتی۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما سے متعلق جے آئی ٹی میں حسین نواز کی پانچویں پیشی

جے آئی ٹی نے عدالت سے ویڈیو ریکارڈنگ روکنے کی حسین نواز کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈنگ سے انٹرویو دینے والوں کے حقوق متاثر نہیں ہوئے۔

خیال رہے کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر ان کی تصویر لیک ہونے کی شکایت سپریم کورٹ میں کی تھی اور عدالت سے ویڈیو ریکارڈنگ روکنے کی بھی استدعا کی تھی۔

مزید پڑھیں:فوٹو لیک: تحقیقات کیلئے حسین نواز کا سپریم کورٹ سے رجوع

ان کا موقف تھا کہ تحقیقات کے دوران ویڈیو ریکارڈنگ دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے، جے آئی ٹی ممبران دباؤ ڈال کر اپنے مطلب کے بیانات لینا چاہتے ہیں۔

حسین نواز نے سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی کو ویڈیو ریکارڈنگ روکنے کا حکم دینے کی درخواست کرتے ہوئے تصویر لیک ہونے کی تحقیقات کے لیے حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دینے کی استدعا بھی کردی۔

حسین نواز نے درخواست میں کہا کہ ریٹائرڈ ججز کی سربراہی میں کمیشن بنا کر پتہ لگایا جائے کہ جے آئی ٹی سے تصویر لیک کیسے ہوئی۔

دوسری جانب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونےوالے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد نے بھی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے خط میں جے آئی ٹی کے اراکین کے رویے کی شکایت کی تھی۔

تاہم جے آئی ٹی کا دعویٰ ہے کہ ٹیم کے سامنے پیش ہونے والوں پر دبائو ڈالنے کا الزام بھی بے بنیاد ہے جبکہ تصویر لیک کرنا ملزم کا انفرادی فعل تھا جس کی فوری تحقیات کی گئیں اور رپورٹ عدالت میں جمع کرادی گئی ہے۔