پاکستان

سوشل میڈیا پر گستاخی،پہلی مرتبہ سزائے موت سنا دی گئی

پولیس نے ملزم کو 2016 میں بہاولپور سے گرفتار کرکے ملتان پولیس اسٹیشن پر ایف آئی آر درج کی تھی۔

بہاولپور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شائع کرنے کے جرم پر ایک شخص کو سزائے موت سنا دی۔

حکومتی وکیل کے مطابق اے ٹی سی کےجج شبیر احمد نے 30 سالہ شخص کو سزائے موت سنادی۔

کاؤنٹرٹیرارزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے ملزم کو گزشتہ سال بہاولپور سے گرفتار کیا تھا اور ملتان پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کردیا تھا۔

ملزم تیمور رضا نےمبینہ طور پر فیس بک پر ناموس رسالت،صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے خلاف توہین آمیز مواد شائع کیا تھا۔

خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخی پر پہلی مرتبہ سزائے موت جیسی سنگین سزا سنائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ ملک میں توہین مذہب اور توہین رسالت ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس معاملے پر کئی افراد کو قتل بھی کیا جا چکا ہے۔

مزید پڑھیں:'مشعال خان کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا'

رواں سال کے آغاز میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام پر بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

مشال خان کی ہلاکت کے بعد پورے ملک میں یہ معاملہ زیربحث رہا تھا اور کئی حلقوں کی جانب سے توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کی گونج سنائی دی تھی جبکہ مشال خان کی ہلاکت پر تشکیل دی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ بھی پیش کردی جس میں انھیں توہین مذہب سے بری قرار دیا گیا ہے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد مقتول طالب علم مشعال خان کے والد محمد اقبال خان نے اپنے بیٹے کے مقدمے کو مردان سے منتقل کرنے کے لیے درخواست پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرادی۔

یہ بھی پڑھیں:مشعال قتل کیس مردان سےمنتقل کرنے کیلئے ہائیکورٹ میں درخواست

محمد اقبال خان کے وکیل عبدالطیف آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں امن و امان کی صورتحال اور علاقے میں ملزمان کے اثر و رسوخ کو بنیاد بناتے ہوئے کیس کو مردان سے منتقل کرنے کی استدعا کی۔

انہوں نے درخواست میں موقف اختیا کیا کہ مردان یونیورسٹی میں مشعال خان کے ہولناک قتل کے بعد اسی علاقے میں یہ کیس چلانا علاقے کی امن و امان کی صورتحال کو خراب کر سکتا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ تقریباً 57 ملزمان کو مشعال خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ کچھ ملزمان مفرور ہیں لہٰذا کیس میں ملزمان کی اتنی بڑی تعداد اور دونوں جانب سے گواہان اور حامیوں کی وجہ سے محاذ آرائی ہوسکتی ہے اور علاقہ امن و امان کی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔