نقطہ نظر

آئیں 12 گھنٹے میں قطر کی سیر کریں

تیل سے مالا مال ریاست قطر عصر حاضر کے فن پاروں کی دنیا میں سب سے بڑی خریدار بن چکی ہے۔

قطر: دنیا کے مہنگے ترین جدید فن پاروں کا مرکز

ایم بلال حسن

اگر آپ نے میرے گزشتہ سفر نامے پڑھے ہیں تو شاید آپ یہ تو جان گئے ہوں گے کہ فنون اور ثقافت میرے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ اس بار قطر رخ کیا، جو کسی زمانے میں ایک بے رنگ عرب ریاست تھا جو اب اپنے ثقافتی اقدامات کے ساتھ چونکا دینے والی زبردست طاقت بن چکا ہے۔

تیل سے مالا مال ریاست عصر حاضر کے فن پاروں کی دنیا میں سب سے بڑی خریدار بن چکی ہے، اس کی وجہ شیخہ میاسہ الثانی (موجودہ امیر قطر شیخ بن حماد الثانی کی بہن) ہیں، جو عالمی دنیائے فن میں سب سے طاقتور اور اثرانداز شخصیت قرار دی گئیں ہیں۔ ان کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ فن پاروں پر سالانہ 1 ارب ڈالر خرچ کرتی ہیں۔

اپنے گھروالوں سے ملنے سعودی عرب جانے سے قبل میں نے دوحہ میں 12 گھنٹے کا مختصر قیام کیا۔ میں نے اس چھوٹے قیام کے دوران شاندار میوزیم آف اسلامک آرٹ (ایم آئی اے) دیکھنے کا فیصلہ کیا مگر کیا خبر تھی کہ دیکھنے کو منزلیں اور بھی مل جائیں گی۔

قطر کے دارالخلافہ دوحہ بندرگاہ پر کھڑی روایتی کشتیاں.

جب جہاز دوحہ میں لینڈ ہوا تو مجھے فوراً محسوس ہوا کہ جیسے لگژری نے مجھے گھیر لیا ہے جی ہاں وہی لگژری جو اگرچہ تمام نہیں لیکن زیادہ تر عرب ریاستوں کا خاصہ ہے۔

اس چھوٹے مگر بڑی حد تک حوصلہ مند خلیجی ریاست میں سب کچھ بالکل نیا نیا اور شفاف سا محسوس ہو رہا تھا۔ قطر کی لمبائی چوڑائی پاکستانی انداز میں سمجھاتے ہیں، قطر آزاد جموں کشمیر سے تھوڑا سا ہی چھوٹا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ قطر میں میرا استقبال کرنے والی تمام عمارتیں جیسے راتوں رات ہی زمین سے ابھر آئی ہوں، چاہے وہ نئے طرز کے ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں پر پورا اترتا، نفیس طرز تعمیر کا حامل حماد بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہو یا پھر چوڑی چوڑی شاہراہوں پر کھڑی آسمان چھوتی عمارتوں کی قطاریں ہوں، جنہیں میں نے ٹیکسی کے سفر میں تھوڑا قریب سے دیکھا۔

ایک دیوقامت پیلے رنگ کے لیمپ بیئر یا فانوس بھالو نے میرا قطر کے حماد بین الاقوامی ہوائی اڈے پر استقبال کیا۔.

اور ہاں یہ دیو قامت بھالو ہوائی اڈے میں ایک اسٹیج پر براجمان ہے۔ 23 فٹ (7 میٹر) بلند ٹیڈی بیئر کو جگ مشہور سوئس مجمسہ ساز عرس فسچر نے ڈیزائن کیا تھا۔ اسے قطری شاہی خاندان نے کرسٹی نامی نیلامی مرکز میں 68 لاکھ ڈالر میں فوراً خرید لیا تھا۔

2022 کے فیفا ورلڈ کپ کی حسب توقع میزبانی قطر کرے گا، اس سلسلے میں پوری ریاست بنیادی طور ایک دیوقامت تعمیری سائٹ سی بن گئی ہے۔ یہاں لسیل نامی ایک نئے شہر اور 80 ہزار سیٹوں والے ایک شاندار فٹ بال اسٹیڈیم، جہاں ورلڈ کپ میچوں کا انعقاد ہوگا، کی تعمیر کا ایک کٹھن اور مشقت بھرا کام جاری ہے۔

علاوہ ازیں، 12 بین الاقوامی معیار کے فٹ بال اسٹیڈیم (جن میں سے 6 دوحہ میں ہی واقع ہیں)، جدید تقاضوں سے بھرپور قومی ریلوے نظام اور شہر بھر میں پھیلی 160 کلومیٹر طویل میٹرو نظام بھی زیر تعمیر ہیں۔

قطر میں فٹ بال کا جنون عام ہے۔ یہ مقامی فٹ بال لیگ کی ٹرافی کی شبیہہ ہے.

2022 فیفا ورلڈ کپ کے لیے دوحہ میں زیر تعمیر ایک فٹ بال اسٹیڈیم.

دوحہ— جہاں قطر کی اکثریتی 25 لاکھ آبادی قیام پذیر ہے— کے اس سیر سپاٹے کے دوران میں نے دیکھا کہ شہر میرے گزشتہ قریب 3 سال پرانے سفرِ دوحہ کے دوران دیکھے شہر سے کافی بدل چکا تھا، یہ بدلاؤ کسی گمان سے کم محسوس نہ ہوا۔

خستہ حال ایئر پورٹ کی جگہ اب ایک عالیشان ٹرمینل موجود ہے جہاں سونے کی پرت سے آراستہ کافی خانے ہیں، اور جہاں دوحہ میں دائرہ افق (اسکائی لائن) خالی تھا، وہاں اب نیو یارک کے مین ہیٹن کی بلند عمارتوں جیسی عمارتیں کھڑی ہیں۔ قطر کی ترقی بے مثال ہے۔

قطر میں ہر دوسرا یا تیسرا شخص ایک تارک وطن مزدور ہے اور جنوبی ایشائی باشندے آبادی کا 88 فیصد حصہ ہیں۔ میری ملک میں آمد کی مہر ثبت کرنے والے امیگریشن افسر کے سوائے، اگر کسی دوسرے مقام پر میں نے مقامی باشندے دیکھے تھے تو وہ مقام سوق واقف تھا— شہر کا مرکزی سوق (بازار) یا مارکیٹ —جو ضلع السوق میں واقع ہے۔

مقامی افراد سوق واقف میں گفتگو کر رہے ہیں.

ایک مقامی باشندہ سوق واقف کے ایک کیفے میں اخبار پڑھ رہا ہے.

دیگر خلیجی شاہی ریاستوں کی طرح، مقامی شاہی خاندان کی تصاویر ملک میں جا بجا دیکھنے کو مل جاتی ہیں.

خطے کے زیادہ تر سوق بازاروں کے برعکس، یہاں ماضی کی مخصوص عربی خوبصورتی کو برقرار رکھا گیا ہے۔ میں ایسا وثوق سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کے ساتھ بڑے بڑے کیفیز اور فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹس کا ایک بڑا حصہ منسلک کر دیا گیا ہے مگر پھر بھی اس میں اب بھی ماضی کا احساس بستا ہے۔

شہر میں میری پسندیدہ جگہ ساتھ ہی موجود فالکن (باز) سوق ہے۔ سوق کے اندر ہزاروں ڈالرز میں پرندوں فروخت کیے جاتے ہیں۔ مگر وہاں دکاندار باز کو دیکھنے اور اسے پکڑنے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔ چونکہ میں ایک باز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا لہٰذا انہیں دیکھنے اور سراہنے سے ہی کام چلانا پڑا۔

زیادہ تر عرب ممالک میں باز کا شکار ایک مقبول کھیل کی حیثت رکھتا ہے تو یہ جان کر کوئی حیرت بھی نہیں ہوئی کہ اس علاقے میں ایک فالکن ہسپتال بھی ہے!

بعد میں ہم شہر کے مزید اندر ڈرائیو کرتے ہوئے پانیوں سے متصل دوحہ کورنش کے مقام پر پہنچے، جو کئی حیران کن یادگاروں اور عوامی دن پاروں کا مرکز ہے۔ ان میں لنگر انداز عربی بحری جہاز، پرل (موتی) یادگار اور اور اوری دی اورکس کا مجسمہ شامل ہیں۔

کورنش پر موجود روایتی خطاطی کا ایک فن پارہ.

اوری دی اورکس — جو 2006 کی ایشین گیمز کا باضابطہ میسکوٹ ہے۔ اب اسے دوحہ کورنش پر ہمیشہ کے لیے نصب کر دیا گیا ہے.

دوحہ کورنش میں پرل یادگار.

چونکہ یہاں پہنچنے تک سورج غروپ ہونے کو ہی تھا اس لیے میں نے سورج کی سنہری کرنوں سے چمکتے ویسٹ بے کو بھی دیکھا، پس منظر میں دوحہ کی بلند و بالا عمارتوں کے درمیان موجود ایک طلسماتی مقام ہے۔ مجھے وہ لوگ بھی دکھے جو اب بھی پرانی روایتوں کو خود سے جوڑے ہوئے ہیں۔

میوزیم آف اسلامک آرٹ (ایم آئی اے).

میوزیم جتنا اندر سے شاندار ہے اتنا ہی باہر سے دیدنی۔ صحن کے اوپر ایک آنکھ نما ڈیزائن نمودار ہوتے دکھتا ہے؛ جس میں گنبد کے کونوں والے ڈیزائن کا کمال ہے جو روشنی کو اکٹھا کرتا ہے اور پھر ان سے مختلف طرز کی روشنی منعکس ہوتی ہے.

دوبارہ قبضے میں لی گئی زمین پر تعمیر ہونے والے اس میوزیم سے ملحقہ علاقے سے دوحہ کی دائرہ افق پر نظر آنے والی عمارتوں کے کچھ سب سے شاندار نظارے دیکھنے کو مل جاتے ہیں.

میوزیم کے ساتھ ایم آئی اے پارک بھی ہے جہاں اکثر اوقات مقامی باشندے پرسکون ہونے کے لیے آتے ہیں۔ پارک کی ایک جانب ایک بلند و بالا '7 مجمسہ' ہے۔ جس کی بلندی 80 فٹ سے بھی زیادہ ہے، اس مجسمے میں 7 اسٹیل پلیٹس کو ایک دوسرے کی مخالف سمت میں نصب کیا گیا ہے۔ مجسمے کا مقصد اسلامی ثقافت میں 7 کے ہندسے کی روحانی اور سائنسی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے.

پھر میں نے رخ کیا اس جگہ کا جہاں جانے کا کب سے انتظار تھا، اور جو تمام یادگاروں میں سے زیادہ مشہور ہے، جی ہاں میوزیم آف اسلامک آرٹس یا (ایم آئی اے)۔ جسے 2008 میں دوحہ بندرگاہ سے ملحقہ دوبارہ قبضے میں لی گئی زمین پر تعمیر کیا گیا تھا، چوکور طرز کی عمارت کو ایوارڈ یافتہ چینی ماہر تعمیرات آئی ایم پیئی نے ڈیزائن کیا، جو عربی خلیج کے فیروزی مائل نیلے پانیوں پر کسی آئس کیوب کی طرح نظر آتی ہے۔

بظاہر تو میوزیم کو نقاب پوش خاتون جیسا بنایا گیا ہے؛ اوپر موجود دو کھڑکیاں ایک خاتون کی آنکھیں ہیں جو نقاب سے جھانکتی محسوس ہوتی ہیں۔

قطر میں ایسی ورلڈ کلاس عمارت کو دیکھنا میرے لیے ناقابل یقین سا تھا۔ مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ اس وقت گرے جب پتہ چلا کہ میوزیم کی داخلہ بالکل مفت ہے۔

میوزیم میں تین براعظموں کے 14 سو سال تک کے پرانے اسلامی فن کے نمونوں کا ایک سب سے بڑا ذخیرہ موجود تھا، جن میں وسطی ایشیا، مراکش اور اسپین کے فن پارے بھی شامل ہیں۔

یہاں قریب ہی واقع متحفت: عرب میوزیم برائے فنونِ عصر حاضر تک مفت شٹل سروس بھی دستیاب ہے، اس کی علاوہ قطر نیشنل میوزیم، جس کا مرمتی کام جاری ہے اور سال کے آخر تک دوبارہ عوام کے لیے کھول دیا جائے گا، کے لیے بھی یہ سروس حاضر خدمت رہتی ہے۔

کتارا کلچرل ولیج میں موجود مہاتما گاندھی کے تین بندروں (نہ برا دیکھو، نہ برا سنو، نہ برا بولو) کی جدید طرز فن میں عکسبندی، جو سبودھ گپتا نامی ایک ہندوستانی فنکار کا ایک فن پارہ ہے.

کتارا کلچرل ولیج میں موجود روایتی کبوتروں کا مینار.

میوزیم سے پوری طرح سے محظوظ ہو جانے کے بعد میں نے اپنے قطری سفر کلچرل ولیج میں اختتام پذیر کرنے کا فیصلہ کیا، یہ ایک عوامی جگہ ہے جو فوٹوگرافی میوزیم، ایک ایمفی تھیٹ، چند روایتی عمارتوں اور دنیا بھر کے معروف فنکاروں کے فن پاروں کا مرکز ہے۔

میں سوچنے لگا کہ قطر جیسا ملک جس کے اپنے شہری اقلیت میں ہونے کے باوجود، اگر وہ عالمی اسٹیج پر اپنی مضبوط ثقافتی شناخت کو منواسکتے ہے، اور ثقافتی نشاط ثانیہ کے عمل سے گزر سکتے ہیں تو پاکستانی کیوں نہیں؟

پاکستان زبردست حد تک امیر ثقافت اور روایتوں کے امین ہے؛ ان سے منسوب میوزیم ہونے چاہئیں، جس میں ہماری تمام اکائیوں کی ثقافتوں کی تکثیریت کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ فنون میں سرمایہ کاری ملک کے سماجی ڈھانچے کی ترقی میں زبردست حد تک کارگر ثابت ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔


ایم بلال حسن پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، جنہیں سفر کرنا اور گھومنا پھرنا پسند ہے. انہیں انسٹاگرام پر یہاں فالو کریں، جبکہ ان کا ای میل ایڈریس bilalhassan4688@gmail.com ہے.


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.

ایم بلال حسن

ایم بلال حسن پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، جنہیں سفر کرنا اور گھومنا پھرنا پسند ہے. انہیں انسٹاگرام پر یہاں فالو کریں، جبکہ ان کا ای میل ایڈریس bilalhassan4688@gmail.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔