مشرف دور میں جوہری پھیلاؤ کی تحقیقات کا مطالبہ
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ملک سے ہونے والے جوہری پھیلاؤ کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ مطالبہ اُس وقت سامنے آیا جب جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے سینیٹ اجلاس کے دوران سوال کیا کہ 28 مئی کو ہونے والی یوم تکبیر کی تقریبات میں پاکستان میں جوہری پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کیوں نہ کیا گیا؟
ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی کتاب 'دی لائن آف فائر' میں تسلیم کیا ہے کہ کئی ٹن جوہری مواد پاکستان سے ایران، لیبیا اور جنوبی کوریا کو اسمگل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک شخص یعنی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا جبکہ دیگر افراد کی مدد کے بغیر بڑی مشینوں اور جوہری مواد کو اسمگل کیا جانا ایک شخص کے بس کی بات نہیں۔
معاملے کی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس فراڈ میں ملوث تمام افراد کو نامزد کیا جانا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یوم تکبیر: پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے 19سال مکمل
انہوں نے اصرار کیا کہ اسمگلنگ میں ملوث پورے نیٹ ورک کو سامنے لانا چاہیئے اور اس میں بڑے نام بھی شامل کیے جانے چاہئیں۔
حافظ حمداللہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو تھے لیکن جنرل (ر) مشرف نے انہیں رسوا کیا اور ان کی تضحیک کی۔
واضح رہے کہ ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اور مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی 7ویں ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے دور میں ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام میں پاکستانی کے جوہری پروگرام کے خالق سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نظر بند کردیا گیا تھا۔
2012 میں ڈان نیوز کے پروگرام "فیصلہ عوام کا" میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انکشاف کیا تھا کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں تمام جوہری کام فوج کی نگرانی میں ہوتا تھا، پرویز مشرف نے امریکی دباؤ میں آکر جوہری ٹیکنالوجی فروخت کرنے کا اعتراف کرایا اور امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا۔