دنیا

قطر تنازع کے باوجود دہشتگردوں کی فہرست میں نئے نام شامل

دہشتگرد تنظیموں پرلگائی جانے والی پابندی کی وجہ قطر کی جانب سے اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے، عرب ممالک

عرب ممالک نے 12 تنظیموں اور 59 افراد کے ناموں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا تعلق قطر کے ساتھ ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق دہشت گردوں کے ناموں کی فہرست کا سامنے آنا حالیہ دنوں میں عرب ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے معاملے میں ایک پیش رفت ہے۔

تاہم خلیجی ریاست قطر نے اس فہرست کو بے بنیاد الزامات کا حصہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اعلیٰ قطری سفارتکار کی جانب سے ’اے پی‘ کو دیئے جانے والے بیان کی تائید کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’عرب ممالک کو قطر کا راستہ بند کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘

عرب ممالک کی جانب سے جاری کردہ فہرست قطر کے لیے پریشانیوں میں اضافہ کرسکتی ہے کیونکہ قطر 2022 میں فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والا ہے، جس کے لیے اس کی تیاریاں بھی جاری ہیں تاہم صرف کویت ہی خطے میں قطر معاملے کو سلجھانے کے لیے کوشاں ہے۔

سعودی عرب، بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان تنظیموں اور افراد پر اس لیے پابندیاں لگائی ہیں کیونکہ قطر نے اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کی خلاف ورزی جاری رکھی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے

دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے والی تنظیموں میں سے 6 کو پہلے ہی بحرین میں دہشت گروپس سمجھا جاتا ہے۔

عرب ممالک کی جانب سے جاری کردہ اس فہرست میں یوسف القرداوی کا نام بھی شامل ہے جو مصر کی اخوان المسلموں کے ایک روحانی پیشوا کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

یوسف القرضاوی کو ان کی غیر حاضری میں قاہرہ حکومت کی جانب سے 2013 کی فوجی بغاوت کے بعد مقدمات چلا کر سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔

مصر کی جانب سے اس فہرست میں اخوان المسلمون اور جامعہ اسلامیہ کے مزید رہنماؤں کے نام شامل کیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ جامعہ اسلامیہ وہ گروپ ہے جس نے 2000 کی دہائی میں لڑائی ختم کرنے سے قبل 90 کی دہائی میں مصر میں دہشت ناک حملے کیے تھے۔

سابق مصری رہنما انور سادات کو 1981 میں قتل کرنے والے جامعہ اسلامیہ کے کارکن کے بھائی کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مشرق وسطیٰ کشیدگی:قطر کے اعلیٰ سطح کے وفد کا دورہ پاکستان

مصر نے الگ سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ قطر کے خلاف عراق میں موجود دہشت گروپوں کو ایک ارب ڈالر کی رقم برائے تاوان دینے کی تحقیقات کی جائیں جس کے تحت 26 افراد کو بازیاب کرایا گیا تھا اور ان میں قطری شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے، جبکہ اس معاملے میں مصر کا کہنا ہے کہ قطر نے اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی۔

لیبیا میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث افراد میں جنگجو کمانڈروں اور بن غازی کی دفاعی بریگیڈ کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

فہرست میں یمن میں سلافی جماعت کے رہنما عبدالوہاب الحمیقانی کا نام بھی شامل ہے جن پر امریکا کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ وہ جزیرہ نما عرب خطے میں القاعدہ کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔

قطر دہشت گرد گروپوں کی مالی معاونت اور ان کی حمایت کے الزام کی تردید کرتا رہا ہے تاہم مغربی سفارتکار قطری حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ یا تو سعودی انتہا پسند گروپوں کی حمایت کرتا ہے یا پھر ان کی مالی معاونت کرتا ہے جس میں شام میں موجود القاعدہ کا دھڑا بھی شامل ہے۔

راتوں رات جاری ہونے والی اس فہرست پر ردعمل دیتے ہوئے قطر نے اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق قطر نہ تو دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی مستقبل میں حمایت کرے گا۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ قطر نے خطے میں دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کے خلاف جنگ کی اور نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرکے ان میں ایک امید پیدا کی، لاکھوں افغان مہاجروں کو تعلیم مہیا کر کے ان کے ہاتھوں میں ہتھیار کی جگہ قلم تھمائے اور عالمی انتہا پسند ایجنڈے سے لڑنے کے لیے مقامی کمیونٹی پروگرامز میں مالی معاونت کی۔

مزید پڑھیں: قطر سے سفارتی تعلقات کا خاتمہ: اماراتی انڈیکس گرگیا، تیل مہنگا

’اے پی‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے بھی انتہا پسندوں کی معاونت کے الزام اور عرب ممالک کی جانب سے ’الجزیرہ نیوز نیٹ ورک‘ کو بند کرنے کے مطالبات کو مسترد کردیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور آزاد مملکت یہ قطر کا حق تھا کہ وہ اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کی مدد کرے اس کے باوجود کہ یہ تنظیمیں ہمسایہ ممالک کی موروثی حکومتوں کے لیے خطرہ ہیں۔

اماراتی حکام کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شیخ محمد کا کہنا تھا کہ اگر کوئی (ملک) سوچتا ہے کہ وہ ہمارے (قطر کے) اندرونی معاملات اور مسائل پر پابندی لگانے جارہا ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

یاد رہے کہ اماراتی حکام نے ’اے پی‘ کو بتایا تھا کہ اب ’قطر کے ساتھ کسی بھی مفاہمت کی گنجائش نہیں۔‘

موجودہ مسائل کے ردعمل میں قطری دارالحکومت دوحہ کے رہائشیوں نے گروسریز اسٹور کو خالی کر دیا جبکہ سعودی عرب نے قطر جانے والے ٹرکوں کو سرحد پر روک دیا۔

دوحہ بین الاقوامی ہوائی راستوں کا مرکز ہے لیکن اس کی اپنی ایئرلائن ’قطر ایئرویز‘ پابندیوں کے بعد صرف ایران اور ترکی کی فضائی حدود استعمال کر رہی ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں: پاکستان قطر سے ایل این جی درآمد جاری رکھے گا

دو روز قبل اماراتی حکام نے یو اے ای میں قطر ایئرویز کے دفتروں کو بند کر دیا جبکہ سعودی عرب اور اردن نے اپنی سرزمین پر الجزیرہ کے دفاتر بھی بند کر دیئے تھے۔

الجزیرہ نیٹ ورک نے گزشتہ روز بتایا تھا کہ ان کی ویب سائٹ کو ہیک کر لیا گیا ہے۔

دوسری جانب ترکی پارلیمنٹ نے قطر میں موجود ترکی فوجی اڈے کے لیے فوجی دستہ بھیجنے کی منظوری دے دی جو قطر کی حمایت کی علامت ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں قطر اور دیگر عرب ممالک کو معاملات حل کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس مدعو کیا تھا۔

تاہم قطری وزیر خارجہ نے امریکی صدر کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اس مشکل گھڑی میں قطر چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔

اس معاملے میں تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ قطر میں شاہی حکومت کے خاتمے کے خدشات ابھرے ہیں جبکہ امریکی صدر نے سیکریٹری خارجہ اور ایگزن موبائل کے سی ای او ریکس ٹیلرسن کو امریکا کی جانب سے معاملے کے حل کے لیے بطور ثالث نامزد کیا ہے۔