دنیا

قازقستان: پاک ۔ بھارت وزرائے اعظم کی غیر رسمی ملاقات

نواز شریف اور نریندر مودی نے مصافحہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، بھارتی میڈیا

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان چند لمحوں کی غیر رسمی ملاقات ہوئی۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق قازقستان میں نواز شریف اور نریندر مودی نے مصافحہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

رپورٹ میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان آستانہ اوپیرا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس میں شرکت کے لیے آنے والے مختلف ممالک کے سربراہان کو خوش آمدید کہنے کے لیے منعقدہ تقریب کے موقع پر ہوئی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نریندر مودی نے وزیر اعظم نواز شریف سے ان کی والدہ اور خاندان کی خیریت کے بارے میں بھی دریافت کیا۔

پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے بھارتی ہم منصب کی قازقستان میں کوئی ملاقات شیڈول نہیں ہے جس کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی گزشتہ روز تردید کی تھی۔

واضح رہے کہ دسمبر 2015 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب دونوں رہنماؤں کا آمنا سامنا ہوا۔

دسمبر 2015 میں بھارتی وزیر اعظم، نواز شریف کی نواسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے چند گھنٹے کے دورے پر اچانک پاکستان کے شہر لاہور پہنچے تھے۔

مئی 2016 میں نواز شریف نے دل کے آپریشن سے قبل نریندر مودی کو فون کیا تھا جس میں بھارتی وزیر اعظم نے ان کی جلد صحیابی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

کشیدہ تعلقات

پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں 18 ستمبر کو ہونے والے اڑی حملے کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور بھارت کی جانب سے متعدد بار لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزی کی جاچکی ہے۔

گزشتہ رات بھی آزاد جموں و کشمیر کے نکیال اور کیانی سیکٹرز میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: نکیال اور کیانی سیکٹرز میں بھارتی فوج کی شیلنگ، 4 افراد زخمی

ان واقعات کے بعد بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو کئی مرتبہ دفتر خارجہ طلب کرکے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور بھارتی سفارتکار سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ان واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی اور اس کی تفصیلات پاکستان کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔

یاد رہے کہ کشمیر میں ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں 29 ستمبر کو ہندوستان کے لائن آف کنٹرول کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں نے پاک-بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے اُس رات لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے، جبکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا۔

دوسری جانب گزشتہ برس 8 جولائی کو مقبوضہ کشمیر میں حریت کمانڈر برہان وانی کی ہندوستانی افواج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں بھی کشیدگی پائی جاتی ہے اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف احتجاج میں اب تک 100 سے زائد کشمیری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پیلٹ گنوں کی وجہ سے سیکڑوں شہری بینائی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔