تختِ بابری نے مجھے مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا!
تختِ بابری نے مجھے مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا!
نیلے رنگ کا ایک بورڈ جنگل کو جاتی ایک چھوٹی گزرگاہ کی جانب اشارہ کر رہا تھا، میرے سامنے ایک شاندار جھیل تھی، جو کلر کہار کی شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ چھوٹا سا شہر کلر کہار جہلم کے کناروں پر آباد ہے، جہاں نمک کے پہاڑوں نے اِسے اپنی باہوں میں لیا ہوا ہے۔ یہ علاقہ عرصہ دراز سے سیاحتی مقام بنا ہوا ہے، بالخصوص موٹر وے کے بننے کے بعد اِس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
یہ پورا علاقہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین اور قدیم تاریخ کے طلبہ کے لیے کسی پوشیدہ خزانے سے کم نہیں۔ اِس شہر کے قریب ہی قدیم دور میں بننے والا کٹاس راج کا شِوا مندر واقع ہے۔ تھوڑا آگے مشرق کی جانب نندانہ کا قلعہ ہے۔
کٹاس راج کے شمال میں ایک ٹیلے پر ٹِلہ جوگیاں کا مقام واقع ہے، جوکہ ایک وسیع رقبے پر پھیلا علاقہ ہے جہاں بیچوں بیچ ایک تالاب بنا ہے اور اِس کے گرد کئی سمادھیاں بنی ہوئی ہیں۔ عرصہ قدیم سے یہ جگہ پنجاب کے جوگیوں کے لیے ایک اہم مذہبی زیارت کی حیثیت رکھتی ہے، وہ جوگی تقسیمِ ہند کے بعد یہاں سے چلے گئے۔