نقطہ نظر

تختِ بابری نے مجھے مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا!

یہ مقام میری توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ ہندوستان میں پہلی مغلیہ عمارت ایک شاندار نام اور اسٹیج نما جگہ کے اور کچھ نہ تھی

تختِ بابری نے مجھے مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا!

ہارون خالد

نیلے رنگ کا ایک بورڈ جنگل کو جاتی ایک چھوٹی گزرگاہ کی جانب اشارہ کر رہا تھا، میرے سامنے ایک شاندار جھیل تھی، جو کلر کہار کی شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ چھوٹا سا شہر کلر کہار جہلم کے کناروں پر آباد ہے، جہاں نمک کے پہاڑوں نے اِسے اپنی باہوں میں لیا ہوا ہے۔ یہ علاقہ عرصہ دراز سے سیاحتی مقام بنا ہوا ہے، بالخصوص موٹر وے کے بننے کے بعد اِس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

یہ پورا علاقہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین اور قدیم تاریخ کے طلبہ کے لیے کسی پوشیدہ خزانے سے کم نہیں۔ اِس شہر کے قریب ہی قدیم دور میں بننے والا کٹاس راج کا شِوا مندر واقع ہے۔ تھوڑا آگے مشرق کی جانب نندانہ کا قلعہ ہے۔

کٹاس راج کے شمال میں ایک ٹیلے پر ٹِلہ جوگیاں کا مقام واقع ہے، جوکہ ایک وسیع رقبے پر پھیلا علاقہ ہے جہاں بیچوں بیچ ایک تالاب بنا ہے اور اِس کے گرد کئی سمادھیاں بنی ہوئی ہیں۔ عرصہ قدیم سے یہ جگہ پنجاب کے جوگیوں کے لیے ایک اہم مذہبی زیارت کی حیثیت رکھتی ہے، وہ جوگی تقسیمِ ہند کے بعد یہاں سے چلے گئے۔

برصغیر میں ہونے والی پہلی مغلیہ تعمیر: تخت بابری— تصویر ہارون خالد

میں بورڈ کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہوگیا اور چٹانی ڈھلوان راستے پر چڑھنے لگا۔ اچانک راستہ ختم ہوا اور ہمارے سامنے تختِ بابری تھا۔ پتھروں سے بنی گہرے سرمئی رنگ کی قدیم دور کی ایک چھوٹی یادگار، یہ کچھ خاص مُتاثر کن جگہ تو نہیں، بس سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں جو پتھر کے بنے اسٹیج پر ختم ہو رہی ہیں۔

برابر میں نصب تختی پر درج ہے کہ مُغلیہ سلطنت کے بانی نے یہاں ایک باغ تعمیر کروایا تھا جسے اُنہوں نے باغِ صفا کا نام دیا تھا۔ اِس باغ کے بیچوں بیچ اِس تخت کو بنوایا گیا۔ تختی پر یہ بھی درج ہے کہ اِسی تخت پر کھڑے ہوکر بابر اپنی فوج سے مُخاطب ہوئے تھے۔ اِس باغ کو بعد میں جنگل نے نگل لیا تھا۔

شاید اِس یادگار کو دیکھنے پر میری مایوسی کی وجہ اِس سے جُڑی بڑی بڑی توقعات تھیں۔ بابر نے اپنی زبردست آپ بیتی میں بھی تختِ بابری کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ یہ مقام ہندوستان میں سب سے پہلی مغلیہ فنِ تعمیر تھا۔ چونکہ میں لاہور میں پلا بڑا ہوں اِس وجہ سے عالیشان مُغلیہ فنِ تعمیر کی عمارتیں اور دیگر مقامات ہمیشہ مجھ سے محض چند کلومیٹرز کے فاصلے پر رہی ہیں۔

فن تعمیر کے شاہکار

بچپن میں ہمیں کئی بار اسکول ٹرپ کے بہانے شاندار بادشاہی مسجد دیکھنے کا موقع ملا۔ قعلہ بند شہر کے کنارے کھڑے ہو کر، مہاراجہ رنجیت سنگھ، مینارِ پاکستان اور اِس مسجد کو دیر تک تکتے رہتے۔ بادشاہی مسجد کو دہلی کی جامع مسجد کی طرز پر تعمیر کا حکم شہنشاہ اورنگزیب نے دیا تھا اور آج وہی مسجد اِس شہر کی پہچان بن چکی ہے۔

مسجد کے ساتھ موجود فوڈ اسٹریٹ میں آنے والے سیاحوں کے لیے اِس مسجد کو روشنی میں نہلایا جاتا ہے جس کی روشنی میں مسجد کا ماربل گبند اور سینڈ اسٹون ٹائلز جگماتے نظر آتے ہیں۔

مسجد کا سادہ اور حسین بیرونی ڈیزائن مسجد کے اندرونی حصے میں موجود نفیس جیومیٹریکل ڈیزائن سے بالکل مختلف ہے، اندر آپ کو دیواروں اور محرابوں پر تراشے ہوئے پھولوں اور پھلکاری کی طرز پر ناقابلِ یقین نقاشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مسجد نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں اقسام کے ڈیزائن کا توازن برقرار رکھا ہوا ہے، باہر سے سادگی اور اندر سے حیرت میں ڈالتے سنگ تراشی کے خوبصورت نمونے۔

لاہور میں واقع بادشاہی مسجد— تصویر کامران اسلم/وکی میڈیا کامنز

وہاں سے ایک کلومیٹر دور دہلی دروازے کے کافی اندر وزیر خان مسجد واقع ہے، جو پورے جنوبی ایشیاء میں موجود مغلیہ طرز کی تعمیرات میں سے ایک انتہائی خوبصورت نمونہ ہے۔

شنہشاہ شاہ جہان کی شہنشاہت کے دوران پنجاب کے گورنر وزیر خان کے حکم پر بننے والی اِس مسجد میں رنگے رنگوں کا حسین امتزاج واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

یہ عمارت کسی بھی عام سیاح پر سحر طاری کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ یہاں کے نیلے، سرخ، پیلے اور سبز رنگ جہاں انفرادی طور پر اپنی خوبصورتی بکھیرتے ہیں وہاں آپس میں مل کر رنگوں کا ایک ایسا دلکش امتزاج بھی پیش کرتے ہیں جو اِس مسجد کو اپنا ایک بالکل مختلف خالص مزاج بخش دیتے ہیں۔

مسجد کے داخلی حصے کے فرش پر شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرز پر 6 کھانوں والی شکل کے ڈیزائن نظر آتے ہیں جنہیں مقرنس کہا جاتا ہے۔ یہاں اسلامی طرزِ تعمیر بالکل مختلف ہے، مسجد کے عمارتی ڈھانچے ریاضی کے پیچیدہ فارمولوں کا نچوڑ ہیں، جو اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح سائنسی ترقی، فنکارانہ ترقی کے شانہ بشانہ چلتی آرہی ہے۔

شاید یہ مسجد، بادشاہی مسجد جتنی مقبولیت تو نہ رکھتی ہو، لیکن حالیہ دنوں میں یہ مسجد خاص کر اُن سیاحوں کی ترجیحات میں ضرور شامل ہوچکی ہے جو اِس ثقافتی مرکز، لاہور کو اِس کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں جاکر اور قریب سے دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اِن تمام تر خوبیوں کی موجودگی میں آخر یہ یادگار عمارت کیونکر کسی کو اپنی محبت میں گرفتار نہ کرے؟

وزیر مسجد — تصویر شہباز اسلم/وکی میڈیا کامنز

دہلی دروازے کے اندر داخل ہونے پر آپ کو وزیر خان کی تعمیر کروائی گئی ایک دوسری شاہی حمام نامی یادگار عمارت دیکھنے کو ملے گی۔ اِس عمارت کی حال ہی میں مرمت کی گئی ہے۔ اِس شاہی حمام کی دیواروں پر پریاں اور جِن طلسماتی ساز سروں کے ساتھ محوِ رقص ہوتے ہیں۔

یہاں پھلکاری اور جیومیٹریکل نمونے آپس میں مل کر ریاضی اور فنون کی ایک خوبصورت امتزاج پیش کرتے ہیں۔ گنبد کے اندرونی نقش و نگار دیکھنے والے کے ذہن پر سکتہ سا طاری کردیتے ہیں۔ چوڑی دیواریں اور سوچ سمجھ کر بنائی گئی کھڑکیوں سے حمام گرمیوں کے دنوں میں بھی ٹھنڈا اور ہوا دار رہتا ہے۔

شاہی حمام — تصویر ابن اظہر /وکی میڈیا کامنز

عاجزانہ ابتدا

نادانستہ طور پر میں نے سوچ لیا تھا کہ تختِ بابری بھی اِن عمارتوں جیسا ہوگا جن کے درمیان میرا بچپن گزرا اور جن کی محبت میں گرفتار تھا۔ یہ تخت اُس بابر کا تھا جو پہلا مغل بادشاہ اور مغلیہ سلطنت کا بانی تھا۔ اگر بابر نہ ہوتا تو نہ ہی بادشاہی مسجد ہوتی اور نہ شاہی حمام۔ اِس مقام پر بھی تو مغلیہ طرزِ تعمیر کی نمایاں خصوصیات کا عکس نظر آنا چاہیے تھا کیونکہ یہی تخت آگے چل کر دنیا کے امیر ترین سلطنتوں میں سے ایک کا سنگِ بنیاد بننا تھا۔

مگر یہ مقام میری توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ ہندوستان میں پہلی مغلیہ عمارت سوائے ایک شاندار نام اور ایک اسٹیج نما جگہ کے اور کچھ نہ تھی۔

یہ تعمیر، سلطنت کی تلاش میں مصروف ایک بادشاہ کی تھی، نہ کہ کسی شہنشاہ کی جس کا خاندان نسلوں سے اقتدار پذیر تھا، جس کے ہاتھوں میں کروڑوں لوگوں کی قسمت تھی، جو بے پناہ دولت کا مالک تھا۔ اِس کی تعمیر کے بعد جس مغل سلطنت کا قیام ہوا اور خصوصاً اُس میں شروع ہونے والی مغلیہ طرزِ تعمیر کی شاندار روایت کی ابتداء ہوئی، لیکن اُس کے سامنے تختِ بابری محض ایک شرمسار مغلیہ نشانی ہے۔

لیکن مذکورہ تمام عالیشان عمارتوں کے مقابلے میں اِس تخت کی اپنی ایک غیر معمولی اہمیت ضرور ہے۔ یہ ہندوستان میں مغلوں کی آمد کی نشانی ہے۔ یہ اُن کی حاکمیت کی مُہر تھی۔ یہ تختِ بابر اُس نادار شہزادے کا تھا جس نے آگے چل کر دنیا کی ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر اسکرول ڈاٹ ان پر شائع ہوا اور بااجازت یہاں شائع کیا گیا۔

ترجمہ: ایاز احمد لغاری


ہارون خالد لمز سے اینتھروپولوجی میں فارغ التحصیل ہیں۔ وہ پاکستان بھر میں سفر کرتے ہیں اور تاریخی اور ثقافتی ورثے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ وہ دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ہارون خالد

ہارون خالد لمز سے اینتھروپولوجی میں فارغ التحصیل ہیں۔ وہ پاکستان بھر میں سفر کرتے ہیں اور تاریخی اور ثقافتی ورثے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ وہ دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔