آدھی رات کا لاہور
آدھی رات کا لاہور
لاہور میرے لیے ایک افسانوی شہر ہے، جسے پڑھتے، گھومتے، سمجھتے میں کبھی تھکا ہوں اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔
صرف لاہور ہی نہیں میرے لیے پورے پنجاب کا احساس ہی الگ ہے، لاہور کچھ اس لیے زیادہ دل کے قریب ہے کیونکہ یہاں وہ وقت گزارا ہے جو باقی زندگی کی کہانی میں فلیش بیک کی حیثیت رکھتا ہے۔
میں دوبارہ سے ویسا وقت تو نہیں گزار سکتا لیکن بدلتے کرداروں اور ماحول میں رہتے ہوئے بھی اپنی کتاب کے اوراق پلٹ کر پیچھے جھانک ضرور لیتا ہوں۔
لڑکپن کا زمانہ ایسا وقت ہے جو چاہے انسانوں کے جنگل میں گزارا جائے یا درختوں کے، کچی گلیوں میں گزرا ہو یا پکے بنگلوں میں وہ پوری زندگی سائے کی طرح انسان سے چمٹا رہتا ہے، جیسے سایہ روشنی کی سمت کے حساب سے جگہ بدلتا رہتا ہے ویسے ہی یہ وقت بھی وقت بوقت جگہ بدل بدل کر بتاتا رہتا ہے کہ میں بھی تو ہوں، کیا ہوا جو گزر گیا پر گزارا تو تم نے ہی ہے۔
تین سال لاہور میں گزارنے اور پھر کراچی کا ہوجانے کے بعد میرے لاہور کے دو چکر ایسے لگے جن میں کام کا بوجھ کم تھا تو اسی بوجھ کو پیروں پر منتقل کرتے ہوئے کبھی دلی دروازے کو کھٹکھٹایا گیا، کبھی داتا دربار اور اس سے ملحقہ علاقے میں لوگوں کی شکلیں تاڑی گئیں۔
قصہ یہ ہے کہ ہم کراچی کو تیز بارش کے حوالے کر کے ٹرین سے لاہور پہنچے تو بارش بھی پیچھا کرتی پہنچ گئی، اور ہماری طرح اتنے لمبے سفر کے بعد وہ بھی کمزور ہو چکی تھی۔ میرا خیال تھا کہ لاہور میں دھند ہمارا استقبال کرے گی لیکن یہ خوش فہمی ثابت ہوئی۔
مجھے دھند بھری راتوں میں مفلر لپیٹے اس کی گیلی خوشبو میں چلنا اچھا لگتا ہے۔ خیر ہلکی بارش نے لاہور کے موسم کو رومانوی بنا دیا تھا، جب چائے کی پیالی ہونٹوں کو لگائے جب آپ کی گال پر بارش کی بوندیں بوسے دے رہی ہوں اور دل اس لمحے کے رک جانے کی خواہش کے آگے گھٹنے ٹیک دے، جب جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے منہ میں پان رکھے آپ آدھی رات کو ٹیکسالی دروازے کی ان گلیوں میں گھوم رہے ہوں جن کا ذکر لڑکپن میں آپ کے کان لال کر دیتا تھا، جب فوڈ اسٹریٹ چار منزلہ رستوران کی چھت سے دکھتا پرانا لاہور آپ کی سوچ کو ایسے دوڑائے جیسے آپ بچپن میں گاؤں کی چھتوں پر دوڑتے پھرتے تھے۔