قطر کا بائیکاٹ:اپوزیشن کی او آئی سی اجلاس کی تجویز
اسلام آباد: سعودی عرب سمیت 6 اسلامی ممالک کی جانب سے قطر کا بائیکاٹ کرنے کے معاملے پر ارکان قومی اسمبلی نے حکومت سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس بلانے کی بھی تجویز دے دی۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہوتے ہی نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خطے میں سنگین بحران جنم لے رہا ہے لیکن ہماری وزارت خارجہ کنفیوز دکھائی دے رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قطر کا 6 اسلامی ممالک نے بائیکاٹ کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے کئی عمرہ زائرین قطر میں پھنس گئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی ملک سے ہمارے تعلقات متاثر ہوں، ہم سعودی عرب اور ایران سے تعلقات خراب نہیں کر سکتے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ عرب-امریکا-اسلامی کانفرنس میں بھی پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے
ان کا کہنا تھا کہ پہلے پہل کہا گیا کہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف بنایا جا رہا ہے، پہلے ایران کو اتحاد سے الگ رکھا گیا اور اب قطر کو دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگا کر الگ کر دیا گیا، جبکہ دفتر خارجہ کی جانب سے تاحال پوزیشن واضح نہیں کی گئی، ہمیں اس معاملے کے تناظر میں پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس موقع پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ خطے کے حالات خراب ہوں گے تو پاکستان بھی متاثر ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دشمن ہر وقت ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہے اور مسلم امہ انتشار کا شکار ہوتی جا رہی ہے، کیا پاکستان او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ نہیں کر سکتا؟
یاد رہے کہ گذشتہ روز سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عرب ممالک کی جانب سے قطر کے اچانک بائیکاٹ کا سبب؟
اس کے علاوہ لیبیا کی مشرقی حکومت کے وزیر خارجہ محمد دیری نے بھی اپنے ایک بیان میں قطر سے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا، تاہم انھوں نے فوری طور پر اس اقدام کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔
سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے دوحہ سے تعلقات بحال رکھنے کا عندیا دیا تھا۔
دوسری جانب قطر نے دہشت گردی کی مبینہ حمایت کرنے پر سعودیہ سمیت دیگر اسلامی ممالک کی جانب سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ان دعوؤں اور الزامات کو بلاجواز اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا، قطر کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے کا عام شہریوں کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاناما جے آئی ٹی اور حسین نواز کی فوٹو لیک کا معاملہ
اجلاس کے دوران پاناما پییرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اور حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر لیک ہونے والی ایک تصویر سمیت قطری شہزادے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج ملک میں بجٹ پر بحث کے بجائے جے آئی ٹی پر بحث ہو رہی ہے، اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ حسین نواز کی تصویر کیسے لیک ہوئی؟ جبکہ وزارتیں، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف آئی اے) تصویر لیک ہونے سے لا تعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔
انھوں نے سوال کیا کہ قطری شہزادہ پاکستان آنے سے انکار کیوں کر رہا ہے، جبکہ اسی قطری شہزادے پر آپ کے پورے کیس کی بنیاد ہے۔
مزید پڑھیں: حسین نوازکی فوٹو لیک: پی ٹی آئی، ن لیگ کے ایک دوسرے پر الزامات
شاہ محمود قریشی کے خطاب کے دوران حکومتی ارکان نے ہنگامہ آرائی کی اور حسین نواز کی تصویر اور قطری شہزادے کا نام لینے پر لیگی ارکان رانا حیات اور میاں منان نشستوں پر کھڑے ہوگئے، جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے حکومتی ارکان کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ پر بحث کے دوران کسی موضوع پر بھی بات ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی تفتیش کے دوران زبان کاٹی گئی، ہم نے شور نہیں مچایا، حسین نواز کو تو باعزت طریقے سے جے آئی ٹی میں بٹھایا گیا، قطری شہزادہ نہیں آتا تو نہ آئے۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی پاناما پیپر کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر لیک ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: فوٹو لیک: ’ذمہ داری وزارتِ داخلہ پر ڈالنا لغو اور مضحکہ خیز‘
مذکورہ تصویر، جو کسی سی سی ٹی وی فوٹیج سے لیا گیا اسکرین شاٹ معلوم ہوتی ہے، پر 28 مئی کی تاریخ درج ہے، یہ وہی دن ہے جب حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پہلی مرتبہ پیش ہوئے تھے۔
تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے احاطے میں ایک کمرے میں بیٹھے ہیں اور تفتیش کاروں کے سوالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
مذکورہ تصویر کی 'غیر قانونی اشاعت' پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اسے تحقیقات کے قوانین کی 'سنگین خلاف ورزی' قرار دیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے اسے خود کو 'مظلوم' ثابت کرنے کے لیے حکمران جماعت کی ایک دو رخی حمکت عملی قرار دیا تھا۔
بجٹ سیشن میں اپوزیشن کی تقریر لائیو دکھانے کا معاملہ
قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ تقریر براہ راست دکھانے پر حکومتی وزراء کے پاس فیصلے کا اختیار نہیں ہے، ہمارا انتظار کرنے کے بجائے بجٹ پر بحث حکومتی ارکان سے شروع کروائی گئی، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ یک طرفہ سیاست چلے، آج ہم تقریریں لائیو دکھانے کے معاملے سمیت چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بات کر رہے ہیں'۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ ہم 'رنگ بازیاں' کرتے ہیں اور قلابازیاں کھاتے ہیں، ہم حکومت کی اس زبان سے پریشان ہونے والے نہیں ہیں۔
اجلاس کے دوران عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے حاجی غلام احمد بلور نے بجٹ بحث لائیو دکھانے کے معاملے کو سلجھانے کا مطالبہ کیا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے آصف حسنین اور جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے بھی اسپیکر سے معاملہ حل کرانے میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی: تقاریر لائیو نشر نہ کرنے پر اپوزیشن کا بائیکاٹ
جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب کو ہدایت کی کہ سب معاملہ سلجھانا چاہتے ہیں، آپ اپوزیشن سے مل کر حل نکالیں۔
اس موقع پر سربراہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی محمود خان اچکزئی نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کا حل تجویز کرتے ہوئے کہا کہ بحران کے حل کے لیے قواعد میں فوری ترمیم کی جائے اور وزیر خزانہ کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کی بجٹ تقریر لائیو دکھانا لازم قرار دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر پی ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے واک آؤٹ کر گئیں۔