نقطہ نظر

اداریہ: جے آئی ٹی کو متنازع نہ ہونے دیا جائے

وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کے سیاسی مستقبل کے علاوہ جمہوری نظام کی ساکھ بھی اس وقت زیرِ آزمائش ہے۔

وزیرِ اعظم نواز شریف کے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) پر بڑھتا ہوا تنازع سپریم کورٹ کی فوری توجہ چاہتا ہے۔

جے آئی ٹی کی تشکیل اور کارکردگی کے بارے میں اب تک کم از کم تین ایسے مسائل ہیں جنہوں نے اس پورے مرحلے پر شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔

سب سے پہلے اور سب سے حالیہ معاملہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی اس کمرے سے لیک ہونے والی ایک سی سی ٹی وی فوٹو ہے، جہاں جے آئی ٹی اپنی انکوائری کر رہی ہے۔ اس تصویر نے سیاسی اور ابلاغی منظرنامے پر تہلکہ مچا دیا ہے۔

اب تک اس حوالے سے کوئی تاویل سامنے نہیں آئی ہے کہ یہ تصویر منظرِ عام پر کیسے آئی، جے آئی ٹی کی کارروائی خفیہ انداز میں کیوں ریکارڈ کی جا رہی ہے، اور یہ کہ اس کی ریکارڈنگ کہاں محفوظ ہیں اور کون کون ان تک رسائی رکھتا ہے۔

جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے تحقیقاتی بازو کے طور پر کام رہی ہے اور تحقیقات کے نتائج کے ملکی سیاست پر دور رس اثرات ہو سکتے ہیں چنانچہ عدالتی کارروائی کا تقدس ایک میڈیا سرکس کے ہاتھوں پامال ہوتے ہوئے دیکھنا افسوسناک ہے۔

دوسری بات، سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے جے آئی ٹی کے لیے ارکان فراہم کرنے والے اداروں سے رابطے کا معاملہ اب بھی وضاحت طلب ہے۔

توقع کی جاتی ہے کہ عدالت کی جانب سے ریاستی اداروں سے کیے جانے والے تمام روابط کی باقاعدہ دستاویزات مرتب کی جائیں گی، جبکہ اس طرح کے رابطوں کے روایتی طریقہءِ کار کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا۔

پر بظاہر رجسٹرار کی جانب سے غیر رسمی کالز میں اس طریقہءِ کار پر عمل نہیں کیا گیا، جس سے انٹرنیٹ پر فون کالز کے بارے میں سنجیدہ سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔

شاید یہ صرف رجسٹرار کی عدم توجہی یا غفلت ہو، مگر سپریم کورٹ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا، اور ریاستی اداروں پر بلاجواز اثر کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا بھی جواب دینا چاہیے۔

تیسرا اور سب سے اہم مسئلہ مالیاتی معاملات، جس کی تحقیقات یہ جے آئی ٹی کر رہی ہے، کی تحقیقات میں فوج کے انٹیلیجنس اداروں کے دو ارکان کی شمولیت ہے۔

جے آئی ٹی کے دیگر نامزد کردہ ارکان کے برعکس انٹیلیجنس نمائندوں کا اس حوالے سے جائزہ نہیں لیا گیا ہے کہ آیا وہ مالیاتی معاملات کی تحقیقات کے لیے موزوں ہیں یا نہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ اس معاملے میں فوج کے انٹیلیجنس نمائندوں کو کسی صورت بھی شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھا، اور جب کیا گیا تب بھی غیر ضروری مروت برتی گئی۔

یہاں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ داؤ پر کیا لگا ہے۔

سپریم کورٹ میں تاریخی سماعتوں کے دوران پہلی بار ملک کے وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کی دولت اور کمائی کے ذرائع کی تحقیقات ہوئی ہیں۔

وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کے سیاسی مستقبل کے علاوہ جمہوری نظام کی ساکھ بھی اس وقت زیرِ آزمائش ہے۔

اس لیے سپریم کورٹ ان سب باریکیوں کا فیصلہ کرنے کے لیے درست فورم ہے۔ اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ تمام ضوابط اور قوانین کی سختی سے پاسداری کی جائے گی۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 6 جون 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ