دنیا

عرب کشیدگی: ’کویت ثالثی کی کوشش کررہا ہے‘

قطر کے وزیر خارجہ کے مطابق کویت کے امیر نے عرب کشیدگی کو حل کرنے کیلئے وقت مانگا ہے۔

سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے ہر قسم کے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے فیصلے کے بعد عرب ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرانے کیلئے کویت نے ثالثی کی پیشکش کردی جبکہ ترک صدر رجب طیب ادوگان نے عرب ممالک کے سربران پر کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے زور دیا اور فلپائن نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق قطر کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر پر لگائی گئی پابندیوں کے فیصلے پر کویت ثالثی کی کوششیں کررہا ہے۔

دوحہ سے تعلق رکھنے والے نیوز چینل ’الجزیرہ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن التھانی کا کہنا تھا کہ کویت کے سربراہ نے قطر کے سربراہ امیر شیخ تمیم بن حامد التھانی کو اس کشیدگی پر کسی قسم کی سخت تقریر کرنے سے منع کیا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے

ان کا کہنا تھا کہ ’امیر کویت کی جانب سے انہیں کال کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تقریر کو ملتوی کردیں اور انہیں کشیدگی کو حل کرنے کیلئے وقت دیں‘۔

اس موقع پر قطر کے وزیر خارجہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی قوم نے قطر پر اپنے فیصلے مسلط کرنے اور ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کو مسترد کردیا ہے۔

اس سے قبل 1991 میں امریکی اتحاد کی عراق کے خلاف جنگ کے دوران ایسی ہی سیاسی کشیدگی پیدا ہوئی تھی اس موقع پر قطر نے 10000 امریکی فوجیوں کو اپنے ملک میں قیام کی اجازت دی اور امریکی بیس بنائے گئے، جس پر متعدد عرب ریاستیں قطر کے خلاف ہوگئیں تھیں، اس دوران متعدد عرب ممالک نے اپنی ایئر لائنز کو قطر کیلئے معطل کردیا تھا اور قطر سے ہر قسم کے سفارتی اور سرحدی تعلقات منقطع کردیے گئے تھے۔

عرب کشیدگی پر فلپائن کے تحفظات

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فلپائن کی حکومت نے سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے قطع تعلق کرنے کے فیصلے پر اپنے تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کشیدگی‘ ملک سے باہر مقیم فلپائنی ملازمین کو متاثر کرسکتی ہے۔

فلپائن کے صدر کے ترجمان ارینسٹو ابیلا کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی متعلقہ ایجنسیز اس معاملے کو دیکھ رہی ہیں اور اس قسم کے اقدام سے متاثر ہونے والے بیرون ملک مقیم فلپائنی ملازمین کی مدد کیلئے اقدامات کررہی ہیں‘۔

ترک صدر کا کشیدگی کم کرنے پر زور

ادھر ترک صدر رجب طیب اردگان نے سعودی عرب، روس، کویت اور قطر کے سربراہان کو فون کرکے زور دیا کہ عرب ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی جائیں۔

گذشتہ روز قبل سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عرب ممالک کی جانب سے قطر کے اچانک بائیکاٹ کا سبب؟

اس کے علاوہ لیبیا کی مشرقی حکومت کے وزیر خارجہ محمد دیری نے اپنے ایک بیان میں قطر سے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا، تاہم انھوں نے فوری طور پر اس اقدام کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔

سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے دوحہ سے تعلقات بحال رکھنے کا عندیہ دے دیا تھا۔

ادھر امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن اور ڈیفنس سیکریٹری جم میٹس کا کہنا تھا کہ انھیں چند خلیجی ممالک سے اس طرح کے فیصلے کی امید نہیں تھی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کرنے پر قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیں گے، تاہم انھوں نے ان ممالک پر اپنے اختلافات کو دور کرنے پر زور دیا تھا۔

دوسری جانب قطر نے دہشت گردی کی مبینہ حمایت کرنے پر سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔

قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ان دعوؤں اور الزامات کو بلاجواز اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا، قطر کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے کا عام شہریوں کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مزید پڑھیں: سعودیہ کا ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان

خیال رہے کہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر منظرعام پرآیا جب ٹھیک ایک ہفتہ قبل ریاض میں عرب-امریکا-اسلامک سمٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران پر خطے میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا۔

قطر بھی اس کانفرنس میں موجود تھا، کیوں کہ وہ بھی 35 رکنی اس عسکری اتحاد کا حصہ تھا، جب کہ قطر یمن جنگ میں بھی سعودی عرب کا اتحادی ہے۔

یہی نہیں قطر اور سعودی عرب کی سرحدیں بھی ملتی ہیں اور دونوں ممالک کے لوگ روزانہ کی بنیادوں پر دونوں طرف آتے جاتے ہیں۔