پاکستان

مشعال خان قتل کیس مردان سے باہر منتقل کرنے کا مطالبہ

ثابت ہوگیاہےکہ مشعال نے کوئی مذہبی جرم نہیں کیا بلکہ اس نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے چوروں کی نشاندہی کی: والد مشعال خان

پشاور: عبدالولی خان یونیورسٹی کے مقتول طالب علم مشعال خان کے والد محمد اقبال خان نے کہا کہ ان کے بیٹے کے قاتل بااثر ہیں اور انصاف دلانے کے لیے حکومت اور سیاسی جماعتیں ان کی مدد کریں۔

عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے مبینہ الزام میں مشتعل افراد کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مشعال خان کے والد نے حکومت سے اپیل کی کہ ان کے بیٹے کے قتل پر انہیں انصاف دلایا جائے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

پشاورپریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مشعال خان کے والد اقبال خان نے کہا کہ انکوائری میں ثابت ہوا ہے کہ مشعال نے کوئی مذہبی جرم کا ارتکا نہیں کیا بلکہ اس نے تو عبدالولی خان یونیورسٹی کے چوروں کو ’چور‘ کہا تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ مرادن یونیورسٹی عظیم لیڈر خان عبدالولی خان کے نام سے تعمیر ہوئی ہے اور میرا بیٹا اس یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن کا صفایہ کر کے تعلیمی ادارے کو پاک کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے مشعال نے اپنی جان قربان کی۔

مزید پڑھیں: مشعال خان کے قتل پر حیرانی کیوں ہو؟

انہوں نے باور کرایا کہ اگر کوئی شخص کرپشن کرتا ہے تو وہ اس کا انفرادی فعل ہے اور اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس کی جماعت نے اسے ایسا عمل کرنے کو کہا۔

انہوں نے کہا ’ مشعال کی گستاخی یہ تھی کہ وہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخل کرایا تھا لیکن اعلیٰ تعلیمی ڈگری کے بجائے بیٹے کی مسخ شدہ لاش تھما دی گئی، ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو غیر انسانی طریقے سے قتل کیا گیا۔

اقبال خان نے ملک کی سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا وہ اپنے بیٹے کا کیس مردان میں نہیں لڑ سکتے کیونکہ ان کے بیٹے کے قاتل با اثر ہیں لہٰذا سیاسی جماعتیں انصاف دلانے میں مدد کریں۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال خان قتل: مزید 7 مشتبہ افراد گرفتار

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مردان یونیورسٹی کے تمام ریکارڈ کو تحویل میں لیکر عملے کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں اور تمام ملوث افراد کی مکمل انکوائری کی جائے۔

مشعال خان قتل کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی ابتدائی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ بیٹے کا کیس پشاورہائی کورٹ منتقل کیا جائے یا اس کیس کو فوجی عدالت میں چلایا جائے۔

اقبال خان کا کہنا تھا کہ مشعال خان قتل کیس کے لیے مردان کی عدالتوں میں پیشی کے لیے نہیں جاسکتا اور اس کیس کو پشاور ہائی کورٹ منتقل کیا جائے۔

انہوں نے اپیل کی کہ صوبائی حکومت میرے ساتھ مالی تعاون کرکے وکلاء کی فیس ادا کرے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر صوبائی حکومت ایسا نہیں کرتی تو میں وفاقی حکومت سے اپیل کرنے پر مجبور ہوں گا۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال خان کو فیس بک کا خراج عقیدت

اپنے دیگر بچوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مردان یونیرسٹی واقعہ کے بعد مشعال کی بہنیں ابھی تک اسکول اور یونیورسٹی نہیں جاسکی ہیں جبکہ جے ٹی آئی رپورٹ نے ثابت کیا کہ مشعال خان بے قصور تھا۔

واضح رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے تشدد سے 23 سالہ طالب علم مشعال خان ہلاک جبکہ ایک طالب علم زخمی ہوگیا تھا۔

ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کے مطابق مشعال خان پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا اور اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے مذکورہ طالب علم پر تشدد کیا تھا جس سے وہ ہلاک ہوگیا تھا۔

تاہم گذشتہ روز پیش کی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کا قتل ناقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایس ایف کے صدر صابر مایار اور یونیورسٹی ملازم نے واقعہ سے ایک ماہ قبل مشعال کو قتل کرنے کی بات کی تھی، مخصوص سیاسی گروہ کو مشعال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا۔