'کھادی' ملازمین کے حقوق کیلئے مسودہ تیار کرنے میں مصروف
کراچی: ملبوسات بنانے والی مشہور کمپنی ’کھادی‘ کی انتظامیہ اور ٹریڈ یونین کے نمائندگان کے درمیان گذشتہ 2 روز کے دوران ملازمین کے حقوق کے حوالے سے مسودہ تیار کرنے کے لیے دو ملاقاتیں ہوئیں۔
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (این ٹی یو ایف) کے سیکری جنرل ناصر منصور نے بتایا کہ اس مسودے کی شرائط و ضوابط کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمپنی افہام و تفہیم کے ساتھ آگے آئی ہے اور اس بات سے آگاہ ہے کہ ملازمین کے ساتھ کچھ مسائل ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ایک اچھی علامت ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کھادی کی انتظامیہ اور ٹریڈ یونین کےدرمیان ملاقات میں ملازمین کی حفاظت، سیکیورٹی، صحت اور اولڈ ایج بینیفٹ زیر بحث آئے۔
کھادی کے نمائندے عمران شیوانی سے جب اس معاملے پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے اپنا فون بند کر دیا۔
مزید پڑھیں: ملازمین کے ساتھ بدسلوکی، 'کھادی' کو شدید تنقید کا سامنا
کھادی کے ڈپٹی جنرل مینیجر انتظامیہ عرفان دالیہ نے کہا کہ بطور ’برانڈ‘ کھادی غیر منصفانہ طرز عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جبکہ ان سے حالیہ ملاقاتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
یہ ملاقاتیں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ افراد کی جانب سے پوسٹس سامنے آنے کے بعد منعقد کی گئیں جن میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ پاکستانی میڈیا نے 22 مئی سے جاری کھادی ملازمین کے احتجاج کو کوریج نہیں دی۔
یہ معاملہ اُس وقت سامنے آیا جب کھادی سے تعلق رکھنے والے کراچی، لاہور اور ملتان کے ملازمین کراچی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکی پر احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے۔
مزدور یونین کے ایک نمائندے عثمان علی کے مطابق 32 ملازمین نے یونینائیزیشن کے حوالے سے نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن (این آئی آر سی) میں ایک فارم فل کیا تھا جو بطور ’لیبر کورٹ‘ کام کرتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس عدالت تک رسائی کا مقصد یونین بنانے کے بعد ملازمت کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
ماہرین کے مطابق این آئی آر سی سے رجسٹریشن حکم نامہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو مالکان کی جانب سے ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنے کی صورت میں جاب سیکیورٹی کی ضمانت دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملازمین سے بدسلوکی، 'کھادی' کی وضاحت سامنے آگئی
این آئی آر سی کراچی بینچ نے 18 مئی کو حکم امتناع جاری کرتے ہوئے کھادی کی انتظامیہ سے کہا کہ اگر ملازمین اپنی ایک تنظیم بنالیں تو وہ اپنے ملازمین کو حراساں یا انہیں ملازمت سے برطرف نہ کرے۔
این آئی آر سی کی جانبب سے جاری کردہ حکم نامے کی نقل کے مطابق کھادی نے ابتدائی سماعت کے دوران کہا تھا کہ کمپنی کا کسی بھی ملازم کو غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف کرنے کا ارادہ نہیں ہے، ساتھ ہی کھادی نے اس معاملے کو جلد حل کرنے کی استدعا کی۔
یہ کیس 18 مئی کو ختم کردیا گیا تاہم عثمان علی کے مطابق معاملہ ختم ہونے کے تین روز بعد ہی بغیر کسی تحریری بیان اور قانونی حکم نامے کے 32 ملازمین کو مینوفیکچرنگ یونٹ کے گیٹ پر ہی روک لیا گیا، جس کے بعد سے یونین ملازمین روزانہ صبح سے شام تک یونٹ کے باہر دھرنا دے رہے ہیں۔
بعدازاں کھادی نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کمپنی کے خلاف لگائے جانے والے الزامات سازش کا حصہ ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ کھادی کو حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر جاری بحث پر تشویش ہے، جو جھوٹ پر مبنی ہے، جس کے ذریعے کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایک اور خبر پڑھیں: بلوچستان میں 28 ہزار سے زائد جعلی سرکاری ملازمین کا انکشاف
بیان کے مطابق ابتداء میں کمپنی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ان بدنیتی پر مبنی اور بہتان آمیز مواد کا جواب نہ دیا جائے، لیکن اب کمپنی محسوس کرتی ہے کہ اس کا فرض ہے کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کرے کہ کمپنی نے اپنے 32 ملازمین کو برطرف نہیں کیا ہے۔
کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اپیل کی گئی کہ افواہوں پر مبنی خبروں کو پھیلانے اور اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں، چاہے وہ کسی کی بھی جانب سے ’شیئر‘ کی گئی ہو۔
ناصر محمود نے انکشاف کیا کہ کھادی اب تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر ’ٹیکس مارک‘ کا نام استعمال کر رہی ہے جو ان ملازمین کی بھرتی اور برطرفی کے معاملات کو دیکھتی ہے۔
انہوں نے کہا ’ میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہمارے یہاں گارمنٹس کی صنعت میں ملازمین کے ساتھ اسی طرح کا رویہ برتا جاتا ہے جبکہ یہاں کوئی قوانین اور مراعات موجود نہیں اور مزدوروں کو کم از کم اجرت 13 ہزار یا پھر اس سے بھی کم دی جاتی ہے'۔
یہ خبر 5 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی