پاکستان

شریف الدین پیرزادہ — متنازع مگر ذہین قانون دان

پیرزادہ کی وفات کےبعد ملک ایک ایسےقانون دان سے محروم ہوگیاجس نےنازک ترین لمحات میں ملک کی آئینی تاریخ کا رخ متعین کیا۔

بیرسٹر سید شریف الدین پیرزادہ کی کراچی میں وفات کے بعد ملکی عدالتی منظرنامہ ایک ایسے نمایاں ترین مگر متنازع قانون دان سے محروم ہو گیا جس کی قانونی ذہانت نے نازک ترین لمحات میں ملک کی آئینی تاریخ کا رخ متعین کیا۔

ایک طرف جہاں ان کے پاس آئین و قانون کے سختی سے پابند قائداعظم محمد علی جناح کا سیکریٹری ہونے کا اعزاز تھا، تو وہیں پیرزادہ نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو بھی اپنی قانونی خدمات فراہم کیں، تاکہ ان کے غیر جمہوری اقدامات کو آئینی تحفظ دیا جاسکے۔

سیاستدان، قانون دان، سفارتکار اور مصنف سید شریف الدین پیرزادہ نے اپنا عوامی کریئر 1945 میں بمبئی مسلم لیگ کے سیکریٹری کے طور پر شروع کیا اور اپنے کئی دہائیوں پر مشتمل کریئر کے عروج پر پاکستان کے اٹارنی جنرل اور وزیرِ خارجہ کے طور پر خدمات بھی انجام دیں۔

ہندوستان کے شہر برہان پور میں 12 جولائی 1923 کو پیدا ہونے والے پیرزادہ نے ممبئی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں لندن کی معروف قانونی درسگاہ لنکنز اِن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

تحریکِ پاکستان کے دوران ممبئی میں وہ بمبئی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور بمبئی مسلم لیگ کے کارکن کی حیثیت سے قائدِ اعظم کے قریب ہوگئے اور کچھ عرصے کے لیے انہوں نے قائداعظم کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

مزید پڑھیں: معروف قانون دان شریف الدین پیرزادہ انتقال کرگئے

آزادی کے بعد انہوں نے کراچی میں سندھ مسلم لاء کالج میں پڑھانا شروع کیا، جہاں سے حکومت کی توجہ ان کی ذہانت پر پڑی، چنانچہ 1968 میں انہیں پاکستان کا اٹارنی جنرل مقرر کردیا گیا۔ وہ تین دفعہ اس عہدے پر فائز رہے، آخری بار انہوں نے 1978 میں یہ عہدہ سنبھالا تھا۔

ایوب دورِ حکومت میں وہ آئینی کمیشن پاکستان کے مشیر، پاکستان کمپنی لاء کمیشن کے سربراہ اور ذوالفقار علی بھٹو کے بحیثیت وزیرِ خارجہ استعفیٰ کے بعد 1966 سے 1968 تک وزیرِ خارجہ بھی رہے۔

انہوں نے 1978 سے 1980 کے دوران اقوامِ متحدہ کی کانفرنس برائے سمندری قوانین (لاء آف دی سی) سمیت قانون کی کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں حکومتی وفود کی سربراہی کی۔ اس کے علاوہ وہ انٹرنیشنل لاء کمیشن کے لیے بھی منتخب ہوئے، اقلیتوں سے عدم مساوات کے خلاف اقوامِ متحدہ کے ذیلی کمیشن کے سربراہ رہے اور یروشلم کی حیثیت پر 1967 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تاریخی قرارداد کا ڈرافٹ بھی تیار کیا۔

جنرل ضیاء الحق کے قانونی مشیر کے طور پر پیرزادہ ہی وہ شخص تھے جنہوں نے وہ اہم ترین آئینی اور قانونی منصوبے تیار کیے، جن کا استعمال کرتے ہوئے ضیاء الحق نے مذہب کی آڑ میں ایک دہائی سے زیادہ تک اپنی آمریت کو برقرار رکھا۔

یہاں تک کہ بعد ازاں ضیاء دور میں بھی جمہوری حکومتوں کے خلاف مشکلات کھڑی کرنے کے لیے پیرزادہ کی آئینی خدمات استعمال کی گئیں اور بینظیر حکومت (1990) اور نواز حکومت (1993) آئین کی شق 2-58 (ب) کا نشانہ بنی، جسے ضیاء الحق نے آئین میں شامل کیا تھا۔

اس شق نے سربراہِ مملکت کو ایک منتخب حکومت کو گھر بھیجنے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار دے رکھا تھا۔ غلام اسحاق خان نے، جو اگست 1988 میں ضیاء کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد صدر بنے،2 بار دو منتخب حکومتوں کو ختم کرنے کے لیے اس شق کا استعمال کیا۔ اس کے بعد جو عدالتی کارروائیاں ہوئیں، ان میں غلام اسحاق خان کو شریف الدین پیرزادہ کا مشورہ دستیاب تھا۔

پیرزادہ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں 'قراردادِ پاکستان اور لاہور کا تاریخی اجلاس'، 'قائدِ اعظم محمد علی جناح کے خطوط'، 'پاکستان میں بنیادی حقوق اور آئینی تحفظ'، تین جلدوں پر مشتمل 'تخلیقِ پاکستان' اور تین جلدوں پر مشتمل 'قائدِ اعظم محمد علی جناح کی تحریروں کا مجموعہ' شامل ہے۔

ان کی نمازِ جنازہ 4 جون کو ظہر کی نماز کے بعد عالمگیر مسجد، عالمگیر روڈ، بہادرآباد کراچی میں ادا کی جائے گی۔

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون 3 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔