پاکستان

حسین نواز کی چوتھی مرتبہ پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیشی

دستاویزی ثبوت جے آئی ٹی میں پیش کیے ہیں، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جتنی بار طلب کرے گی اتنے بار پیش ہوں گے، حسین نواز
|

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپر کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے چوتھی مرتبہ پیش ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور کارکنوں کی بڑی تعداد فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے باہر موجود—۔فوٹو/ شکیل قرار

حسین نواز کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی موجود تھے۔

اس موقع پر کارکنوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور حسین نواز نے ہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دیا۔

جے آئی ٹی کے سامنے کئی گھنٹے گزارنے کے بعد واپسی پر میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے بہت سارے افراد کو طلب کیا ہے، جبکہ دستاویزی ثبوت جے آئی ٹی میں پیش کیے ہیں، جے آئی ٹی جتنی بار طلب کرے گی اتنے بار پیش ہوں گے، بہت جلد سچ سپریم کورٹ کے سامنے آ جائے گا۔

—فوٹو: ڈان نیوز

نواز شریف کی جی آئی ٹی میں پیشی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو ابھی تک نہیں بلایا گیا، کسی مفروضے پر بات نہیں کروں گا، وزیر اعظم نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کی ہے، انہوں نے اپنی جان بھی اداروں کے تقدس کے لیے اپنی جان بھی خطرے میں ڈالی۔

جے آئی ٹی کے رویئے پر ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اگر میرے ساتھ کبھی کوئی خوشگوار معمالہ پیش آیا تو سارے معاملات سپریم کورٹ میں بھی جائیں گے اور عوام کے سامنے بھی لائے جائیں گے۔

پاناما پیپرز میں شامل لندن کی جائیداد سے متعلق سوالات کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ لندن کے فلیٹس کوئی متنازع نہیں، اس حوالے سے عدالت میں دیئے گئے اپنے موقف پر قائم ہیں۔

حسین نواز نے مزید بتایا کہ تمام الزامات باتوں کی حدتک رہے،کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، ماضی میں بھی پورے خاندان نے احتساب کا سامنا کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آئندہ پیشی پر آنے کے لئے ابھی سمن نہیں ملا۔

پیشی سے قبل ذرائع نے بتایا تھا کہ حسین نواز منی ٹریل اور لندن جائیداد سے متعلق سوالوں کے جواب دیں گے۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز وزیراعظم کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز بھی پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے، جہاں ان سے 7 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: حسن نواز بھی پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے حسن نواز کے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو دیئے گئے انٹرویو کے حوالے سے پوچھ گچھ کی تھی، جس میں حسن نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ 1999 میں وہ لندن میں طالب علم کی حیثیت سے مقیم تھے اور ان کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

تفتیش کاروں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وزیراعظم کے صاحب زادے نے اعتراف کیا تھا کہ 1999 تک ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تاہم اپریل 2001 کی مالیاتی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس 70 لاکھ 571 پاؤنڈز کریڈٹ موجود تھا۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پوچھ گچھ کے دوران کیے گئے زیادہ تر سوالات ان کی کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے تھے۔

دوران پوچھ گچھ سابق وزیر رحمٰن ملک کی تیار کی گئی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں اسحٰق ڈار نے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حسین نواز سےجے آئی ٹی کی 5 گھنٹے تفتیش

ذرائع کے مطابق حسن نواز نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا واقعی ہوتا تو رحمٰن ملک جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیرداخلہ تھے ان کے خاندان کے خلاف ایکشن لے چکے ہوتے۔

حسن نواز کا کہنا تھا کہ والد نواز شریف کی جلاوطنی کے دور میں انہوں نے تمام کمپنیاں بنائیں اور قرضہ لے کر اپنا کاروبار جاری رکھا۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ تمام کاروبار قانونی طریقے سے شروع کیا گیا تھا جس کے شواہد انہوں نے جے آئی ٹی کو پیش کیے۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز اس سے قبل جے آئی ٹی کے سامنے 3 مرتبہ جبکہ حسن نواز ایک مرتبہ پیش ہوچکے ہیں۔

جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ

یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ دنوں حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کے دو ارکان پر حسین نواز کا اعتراض مسترد

تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔