قومی اسمبلی میں خورشید شاہ، خواجہ آصف کے درمیان لفظی جنگ
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے گذشتہ روز ہونے والے اجلاس میں قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے درمیان اُس وقت لفظی جنگ دیکھنے میں آئی جب وہ ایک دوسرے کو عدلیہ سمیت ملک کے دیگر اداروں کو کمزور کرنے پر مورد الزام ٹھہرانے لگے.
خیال رہے کہ اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی ہال کے باہر اپنے متوازی سیشن میں شرکت کے بعد اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بنے تھے تاہم خورشید شاہ کا خطاب مکمل ہوتے ہی اپوزیشن نے سیشن کا بائیکاٹ کردیا تھا.
وفاقی بجٹ 18-2017 پر بحث کے لیے شروع ہونے والے سیشن میں اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن لیڈر کو اظہار خیال کا موقع فراہم کیا.
اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہی خورشید شاہ نے حکومت پر ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کا الزام لگایا اور کہا کہ 'ملک کو سرحد کے تین اطراف سے حملوں کا سامنا ہے جبکہ حکمران اداروں سے محاذ آرائی میں مصروف ہیں'.
اپوزیشن لیڈر نے سوال کیا کہ سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے کس کی مدد سے پاناما پیپرز کیس کی تفتیش کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے اراکین اور ججز کو دھمکایا.
انہوں نے کہا کہ 'حکمراں جماعت کے رہنما طویل عرصے سے عدلیہ کو دھمکا رہے ہیں، ایک ٹف ٹائم دینے کی بات کرتا ہے تو دوسرا تابوتوں کو نکالنے کی'.
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اُن تین ججوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے جنہوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا تھا.
انہوں نے سوال کیا کہ 'ملک کو کس سمت میں لے جایا جارہا ہے، لوگ جمہوریت کی تقدیر کو لے کر پریشان ہیں'.
یہ بھی پڑھیں: نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ
بجٹ 18-2017 سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے اس بجٹ کو مسترد کردیا کیونکہ اس میں غریب لوگوں کے لیے کچھ نہیں تھا.
اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی کارروائی کے بائیکاٹ کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی تقریر میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے قائد حزب اختلاف کے الزامات کا جواب دیا.
نہال ہاشمی کے متنازع بیان پر ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی سابق سینیٹر کی کہی ہوئی باتوں کا دفاع نہیں کرسکتا، اس بیان کی صرف مذمت کی جاسکتی ہے.
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نہال ہاشمی کے بیان پر فوری نوٹس لیتے ہوئے سینیٹ کی سیٹ اور پارٹی رکنیت معطل کرکے ان کے سیاسی کریئر کا اختتام کرچکے ہیں.
مزید پڑھیں: دھمکی آمیز تقریر کے بعد نہال ہاشمی سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی
خورشید شاہ کے اس الزام کہ حکومت عدلیہ کا احترام نہیں کررہی، کو مسترد کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ وزیراعظم نے آئین کے تحت حاصل استثنیٰ کو حاصل نہیں کیا اور پاناما پیپرز کیس میں احتساب کے لیے خود بھی پیش ہوئے اور اپنے اہل خانہ کو بھی پیش کیا.
خواجہ آصف کے مطابق 'وزیراعظم نے عدلیہ کے سامنے سر جھکایا اور انہیں اپنی تین نسلوں کی مالی تفصیلات فراہم کیں'.
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ اپنے قائدین کی قربانیوں کا کریڈٹ لینا چاہتی تھیں لیکن ان کے قاتلوں کے نام عوام کے سامنے لانے کو تیار نہیں، ان کا کہنا تھا 'پی پی پی بینظیر بھٹو کی قربانی سے فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے تاہم مکمل معلومات حاصل ہونے کے باوجود ان کے قاتلوں کے نام سامنے نہیں لاتی'.
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی بحالی کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت نے اتنی قربانیاں نہیں دیں، جتنی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دیں، 'دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی پرویز مشرف کے متنازع قومی مفاہمت کے آرڈیننس کا فائدہ اٹھاتی رہی'.
ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی جانب سے عدلیہ بحالی کے لیے کیے جانے والے لانگ مارچ کی حمایت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا.
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے اثاثوں سے متعلق کیس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ وزیراعظم اور ان کی تین نسلوں کا احتساب مانگتے تھے وہ اپنی 20 سال کی لین دین کا ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، 'آج جب عمران خان کی تلاشی لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ میری جیب خالی ہے'.
خورشید شاہ کو 'رنگ باز' قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کو خطبے دینے کے بجائے اپنی پارٹی میں اصلاحات کریں.
جس پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے انہیں خورشید شاہ کے لیے رنگ باز کا لفظ استعمال نہ کرنے کی ہدایت کی اور اسے غیر پارلیمانی زبان قرار دیا.
تاہم خواجہ آصف نے اپنے الفاظ واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب پارلیمان میں وزیراعظم کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی جاسکتی ہے تو وہ رنگ باز کا لفظ کیوں استعمال نہیں کرسکتے.
دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب وزیردفاع نے کہا کہ اسپیکر اس لفظ پر رولنگ دیں تاہم وہ آمادہ نہ ہوئے اور کہا کہ 'مجھے اس کے لیے لغت سے استفادہ کرنا ہوگا'.
یہ خبر 3 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.