پاکستان

حسن نواز بھی پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش

وزیراعظم کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز جے آئی ٹی کے طلب کردہ تمام ثبوت بھی اپنے ہمراہ لائے اور7 گھنٹے پوچھ گچھ ہوئی۔

حسین نواز کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے دوسرے صاحبزادے حسن نواز بھی پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئے جہاں ان سے 7 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے حسن نواز کے برطانوی نشریاتی ادارے(بی بی سی) کو دیئے گئے انٹرویو کے حوالے سے پوچھ گچھ کی۔

یاد رہے کہ اس انٹریو میں حسن نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ 1999 میں وہ لندن میں طالب علم کی حیثیت سے مقیم تھے اور ان کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ 12 اپریل 2001 میں لندن میں اپنا کاروبار شروع کرنے کے قابل کیسے ہوئے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پوچھ گچھ کے دوران کیے گئے زیادہ تر سوالات ان کی کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے تھے۔

تفتیش کاروں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وزیراعظم کے صاحب زادے نے اعتراف کیا تھا کہ 1999 تک ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تاہم اپریل 2001 کی مالیاتی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس 70 لاکھ 571 پاؤنڈز کریڈٹ موجود تھا۔

تفتیشی ٹیم نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ جدہ فیکٹری کی فروخت سے قبل 2005 تک انہوں نے 10 کمپنیاں کیسے قائم کرلیں۔

دوران پوچھ گچھ سابق وزیر رحمٰن ملک کی تیار کی گئی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں اسحٰق ڈار نے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق حسن نواز نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا واقعی ہوتا تو رحمٰن ملک جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیرداخلہ تھے ان کے خاندان کے خلاف ایکشن لے چکے ہوتے۔

حسن نواز کا کہنا تھا کہ والد نواز شریف کی جلاوطنی کے دور میں انہوں نے تمام کمپنیاں بنائیں اور قرضہ لے کر اپنا کاروبار جاری رکھا۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ تمام کاروبار قانونی طریقے سے شروع کیا گیا تھا جس کے شواہد انہوں نے جے آئی ٹی کو پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیں: حسین نواز سےجے آئی ٹی کی 5 گھنٹے تفتیش

حسن نواز جب جے آئی ٹی کےسامنے پیشی کے بعد باہر آئے تو مسلم لیگ نواز کے کارکنوں نے نعرے بازی کی جس کا حسن نواز نے ہاتھ لہرا کر جواب دیا تاہم وہ میڈیا سے گفتگو کیے بغیر واپس روانہ ہوگئے۔

خیال رہے کہ 31 مئی کو تیسری بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز نے پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جے آئی ٹی جسے بھی بلائے گی وہ یہاں پیش ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف کسی جرم کا ثبوت ہے ہی نہیں اور نہ ہی کسی کو کوئی ثبوت ملے گا'۔

'حسن اور حسین سیاست کا حصہ نہیں رہے'

دوسری جانب اپنے بھائیوں کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ 'حسن اور حسین اس عظیم انسان کے بیٹے ہیں جو ہر دور کے کڑے احتساب سے سرخرو ہو کر نکلا'۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کو نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'کسی نے کہا تھا احتساب مجھ سے شروع کریں، لیکن احتساب کے لیے پیش ہونے کے لیے نواز شریف جیسا دل ہونا چاہیے'۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ 'حسن اور حسین کھبی سیاست کا حصہ نہیں رہے لیکن جمہوریت کے لیے، ڈکٹیٹر کے دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کا تمغہ ضرور رکھتے ہیں'۔

جے آئی ٹی افسران پر اعتراض کا معاملہ

یاد رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں وزیراعظم نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کے دو ارکان پر حسین نواز کا اعتراض مسترد

تاہم بعد ازاں پاناما تحقیقات کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔