وزیراعظم استعفے کیلئے ذہنی طور پر تیار: شیخ رشید کا دعویٰ
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ پاناما لیکس اسیکنڈل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی ابتدائی کارروائی کے بعد وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف اپنے صاحبزادے حسین نواز سے زیادہ قابل اپنے کزن طارق شفیع کو سمجھتے ہیں اور جب انھوں دیکھ لیا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے دوران کئی گھنٹوں تک کیے جانے والے سوالات کے بعد صورتحال مشکل ہورہی ہے تو اب وہ عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں'۔
انھوں نے کہا، 'میرے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ قاضی خاندان نے پاکستان آنے کے لیے فوج سے سیکیورٹی کا مطالبہ کیا ہے اور اگر انہیں سیکیورٹی کی یقین دہانی کروا دی گئی تو 3 یا 4 جون کو قاضی خاندان بھی اپنا بیان ریکارڈ کروانے پاکستان آجائے گا'۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ کیس کی حقیقت کو چھپانے کے لیے قاضی خاندان کو پاکستان آنے سے ڈرایا جارہا ہے تاکہ اصل کہانی سامنے نہ آسکے۔
شیخ رشید نے کہا 'میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو بھی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے کہ لندن فلیٹس قطریوں کی ملکیت ہیں، کیونکہ انھوں نے مجھے خود ایک بار کہا تھا کہ آپ ٹی وی پر جاکر بتائیں کہ قطری حکومت کا اس سے کسی قسم کا واسطہ نہیں ہے'۔
مزید پڑھیں: حسین نواز سےجے آئی ٹی کی 5 گھنٹے تفتیش
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں یہ کیس مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے لیے سوال نامہ تیار کیا جاچکا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ انہیں طلب کیا جاتا ہے یا نہیں۔
'مریم نواز کو بچانے کیلئے نواز شریف ہر حد تک جائیں گے'
انھوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کی جانب سے اب تک جو کچھ بھی کیا گیا وہ صرف مریم نواز کو بچانے کی کوشش ہے، کیونکہ وہ اپنے صاحبزادی کو بچانے کے لیے ہرحد تک جانے کو تیار ہیں، لہذا استعفے کے بعد وہ اپنی سیاست کا مستقبل بھی مریم نواز کے سپرد کردیں گے۔
شیخ رشید نے مزید کہا کہ 'میرے پاس یہ بھی اطلاعات ہیں کہ شاید پاناما کیس کی جے آئی ٹی کے مقررہ 60 روز سے قبل ہی کچھ بڑا واقعہ ہوسکتا ہے، کیونکہ کیس جتنا پیچیدہ ہوتا جائے گا، اتنی ہی (ن) لیگ کی مشکلات میں اضافے کا سبب بننے گا'۔
انھوں نے جے آئی ٹی کے ارکان کی سیکیورٹی پر بھی خدشات کا اظہار کیا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جے آئی ٹی کے ارکان پر سخت دباؤ ہے اور اگر سیکیورٹی نہ دی گئی تو ان 60 دنوں میں کوئی بڑا حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے دو مرتبہ پیش چکے ہیں اور اس دوران ان سے کئی گھنٹے تک تفتیش کی گئی۔
اس سے قبل حسین نواز نے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان بلال رسول اور عامر عزیز کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
تاہم یہ درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی، سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس پر جے آئی ٹی تشکیل، ارکان کا اعلان
اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔
جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔