پاکستان

گوادر کے ماہی گیر پریشان کیوں ہیں؟

بندرگاہ تیزی کے ساتھ تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے، لیکن یہاں کے مچھیروں کو گھر بار اور ذریعہ معاش چھن جانے کا خوف ہے۔

سربندر کی بندر گاہ پر کئی چھوٹی کشتیاں بحیرہ عرب میں لنگر انداز ہیں۔ پاس ہی ایک خستہ حال چائے خانے کے ساتھ کھڑی لال رنگ کی کشتی کے نیچے ایک آوارہ کتا اونگھ رہا ہے۔

پانی صاف ہے اور مچھلیوں کا ایک گروہ کنارے پر تیر رہا ہے۔ جمعہ کا دن ہے جبکہ مچھیرے دوپہر میں قریبی مسجد کی طرف جارہے ہیں۔

بندرگاہ پر کوئی 20کلومیٹر پر واقع گوادر کے مقابلے میں کافی سناٹا ہے، جہاں گہرے پانیوں کی چین کے تعاون سے بندرگاہ تعمیر کی جارہی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بندرگاہ اس سوئے ہوئے علاقے کو عالمی تجارتی حب میں تبدیل کردے گی۔

اس کے برعکس، سربندر کی بندرگاہی پلیٹ فارم پر مچھیرے جمع ہوتے ہیں اور دودھ پتی کی کڑی میٹھی پیالیوں کے بیچ گپ شپ کرتے ہیں یا خاموش تماشائی بنے دنیا کا نظارہ کرتے ہیں۔ میں نے بعض مچھیروں سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے معروف سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری) کے بارے میں سنا ہے، لیکن ان کا جواب نفی میں آیا۔

وہ یہ تو جانتے ہیں کہ چینی گوادر پر ایک پورٹ بنا رہے ہیں، لیکن انہوں نے اب تک کوئی چینی باشندہ نہیں دیکھا۔ سی پیک ایک 3000 کلومیٹر طویل راہداری ہے جو مغربی چین میں کاشغر سے پاکستان میں گوادر کے بحیرہ عرب تک جاتی ہے۔

یہ ہمالیہ، میدانوں اور صحراؤں کے بیچ سے گزرتی ہوئی ماہی گیری کی قدیم بندرگاہ گوادر تک پہنچتی ہے۔ چینی فنڈنگ سے بڑے بڑے انفراسٹرکچر منصوبے، اور ساتھ میں سڑکیں، ریلوے نیٹ ورک اور پاور پلانٹ بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ منصوبے کی اصل مالیت 46 ارب امریکی ڈالر تھی جبکہ آج اس راہداری کا تخمینہ 62 ارب امریکی ڈالر ہے۔

سی پیک، چین کے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کا حصّہ ہے۔ ایک بڑے پیمانے پر علاقائی تجارت اور سفارتی منصوبہ جو زمینی اور آبی دونوں راستوں کا احاطہ کرتا ہے اور چین کو باقی ماندہ ایشیا اور یورپ سے ملاتا ہے۔

ماہی گیر پہلے ہی ہنرمند مزدوروں سے تقریباً چار گنا زیادہ کما رہے ہیں۔ — فوٹو ذوفین ٹی ابراہیم۔

گوادر پر زیر تعمیر پورٹ، حکومت پاکستان کی گوادر پورٹ اتھارٹی کی ملکیت ہے اور اس کو چینی سرکاری فرم چائنا اوور سیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی (COPHC) آپریٹ کررہی ہے، جو 40سال تک اسے چلائے گی۔

چین کے لیے، گوادر اسٹریٹجک لحاظ سے عرب/خلیج فارس کے قریب واقع اور آبنائے ہرمز کے قریب ہے، جہاں سے دنیا کا تقریباً 40 فیصد تیل گزرتا ہے۔ COPHC کی ویب سائٹ کے مطابق، گوادر تیل سے مالا مال مشرق وسطی، وسطی اور جنوبی ایشیا کا گیٹ وے ہے.

مچھیروں کی پریشانی

پورٹ کی تعمیر نے فی الحال سر بندر کے لیے محض خوف اور غیر یقینی میں اضافہ ہی کیا ہے۔ حالانکہ اب تک کوئی سرکاری نوٹیفکیشن نہیں آیا، پھر بھی یہ افواہ گردش کررہی ہے کہ گوادر سے بے دخل ہونے والے مچھیروں کی منزل سربندر ہی ہوگی۔

انجمن اتحاد ماہی گیران سربندر کے صدر سعید محمد کہتے ہیں کہ انہوں نے ’بعض ذرائع‘ سے سنا ہے کہ ایسا ہوگا، لیکن کب؟ یہ معلوم نہیں۔

انہوں نے ڈاکنگ ایریا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں اتنی جگہ ہی نہیں کہ ان کی کشتیاں کھڑی ہوسکیں، یہ جگہ تو ہمارے لیے بھی کم پڑ جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سربندر میں تقریباً 5ہزار سے 7 ہزار ماہی گیر اور ایک ہزار کشتیاں ہیں۔ جبکہ گوادر میں یہ تعداد کوئی تین گنا ہے۔

گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سربندر میں ایک جیٹی تعمیر کروا رہی ہے، جس کے بارے میں مکینوں کو شک ہے کہ آخرکار گوادر کے ماہی گیروں کو لاکر بسایا جائے گا۔ ماہی گیر کہتے ہیں کہ جیٹی کا بند انتہائی خراب ڈیزائن کیا گیا ہے اور انجینئروں نے اس کام کے لیے ان سے کوئی مشورہ نہیں لیا۔

سر بندر کے ان مقامی لوگوں کے لیے سی پیک اب بھی ایک اجنبی نام ہے۔ — فوٹو ذوفین ٹی ابراہیم۔

گوادر کے ماہی گیر کہیں نہیں جانا چاہتے

گوادر کے ماہی گیروں نے بھی سنا ہے کہ انہیں سربندر منتقل کردیا جائے گا۔ داد کریم کہتے ہیں کہ "ہمیں سیکیورٹی اداروں نے کئی بار کہا ہے کہ ہمیں پورٹ چھوڑ دینا چاہیے اور سربندرپر مچھلی پکڑنی چاہیے۔"

اپنی برادری کی جانب سے وہ کہتے ہیں، ’ہم یہ جگہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اس جگہ ہم سارا سال ماہی گیری کر سکتے ہیں مگر سربندر پر جون، جولائی اور اگست میں اونچی لہروں کی وجہ سے ماہی گیری نہیں کرسکتے‘۔

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گوادر قدرتی طور پر ہتھوڑی جیسی ساخت کے جزیرہ نما کے ذریعے محفوظ ہے، جو دونوں سائیڈوں پر تقریباً مکمّل نیم دائروں کی شکل میں خلیج بناتا ہے۔"

سیاہ شیشوں والی عینک لگائے نسیم گجر کہتے ہیں، ’ہمیں کشتیوں پر سربندر تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے کیوں کہ ہمارے گھر یہاں ہیں‘، بہرحال ان کے پاس ایک حل ہے، ‘کیوں نہ وہ ہمیں نئے ملاح بند کی طرف منتقل کر دیں جہاں انہوں نے دس سال پہلے ماہی گیروں کا ایک گروپ منتقل کیا تھا؟ وہاں جگہ کی بھی کوئی کمی نہیں اور وہ ہمیں ایک جیٹی اور ایک خلیج بھی بنا کر دے سکتے ہیں‘۔

2007 میں پورٹ کی تعمیر کے پہلے مرحلے میں، ملاح بند نامی ایک صدی پرانی بستی (جہاں آج پورٹ واقع ہے) کے رہنے والے تقریباً ایک سو خاندانوں کو وزیر اعلیٰ کے گھر کے قریب منتقل کیا گیا تھا۔ ان سے گھروں کی تعمیر کے لیے متبادل زمین، ہاؤسنگ پروجیکٹس میں پلاٹ اور نقد کا وعدہ کیا گیا تھا۔

صالح محمّد کہتے ہیں کہ ’میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں معاوضہ نہیں دیا گیا، لیکن ہماری کچھ املاک پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرلیا ہے‘۔ صالح محمد پہلے ماہی گیری سے وابستہ تھے، مگر اب سیمنٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

اس کے علاوہ ان سے ایک ہسپتال، ایک اسکول اور مناسب سڑکوں کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ دس سال گزر گئے، نیا ملاح بند آج بھی ان بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ علاقے کا واحد اسکول کافی فاصلے پر ہے اور وہاں بھی استاد شاذ و نادر ہی حاضر ہوتے ہیں۔

مگر ایسا نہیں کہ گوادر پر صورتحال بہتر ہے۔ وہاں بھی پچھلے کئی سالوں میں بہت سے وعدے کیے گئے۔

گزشتہ ماہ اپنے دورے کے دوران، وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف نے کہا کہ شہر کے اندر 1100 کلومیٹر طویل سڑکیں بنائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا تھا ’جب سڑکیں بنتی ہیں تو خوشحالی آتی ہے، اسکول تعمیر ہوتے ہیں، کالج تعمیر ہوتے ہیں، ہسپتال بنتے ہیں، صنعتیں قائم ہوتی ہیں اور ترقی و خوشحالی پھلتی پھولتی ہے‘۔

لیکن فی الوقت پاکستان کے غریب ترین صوبے بلوچستان کے شہر کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ مقامی صحافی بہرام بلوچ کے مطابق طبّی سہولیات اوسط درجے کی ہیں اور خواتین کے لیے تونہ ہونے کے برابر ہیں۔ بچے کی پیدائش میں پیچیدگیوں کے لیے خواتین کو تربت یا پھر 500 کلومیٹر دور کراچی تک لے جانا پڑتا ہے۔

’گوادر میں آپ کو محض دو یا تین جنرل پریکٹیشنر ملیں گے جبکہ تربت میں کوئی دو درجن معالج ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہسپتال جو پچھلے 8سال سے بند تھا، گزشتہ سال سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی آمد پر صرف آٹھ دن میں کام کرنے لگا۔

گوادر پورٹ ابھی کافی سنسان ہے اور یہاں زیادہ تجارتی سرگرمیاں نہیں ہوتیں۔ — فوٹو شبیر احمد/دی تھرڈ پول

گوادر والوں کی کوئی نہیں سنتا

پاکستان میں تقریباً روز ہی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا کوئی ممبر سی پیک کا حوالہ دیتا یا یہ بتاتا دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح یہ منصوبہ پاکستان کے طول و عرض خاص کر گوادر میں خوشحالی لے کر آئے گا۔ ان سب کے باوجود گوادر کے مقامی مچھیروں کی آوازوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے جو ایک لاکھ 85 ہزار آبادی والے ضلعے کا 80 فیصد ہیں۔

65 سالہ داد کریم کہتے ہیں، ’میرے اپنے ملک، میرے اپنے شہر، میری اپنی زمین پر میرے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک ہورہا ہے ان کے ہاتھوں جو حقیقت میں باہر والے ہیں‘۔ گوادر پورٹ میں کام کرنے والے چینی وفد کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وہ گرمجوشی سے مسکرائے، ہم سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ وہ ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں کیونکہ ہم ان کے مہمان ہیں۔ اپنی ہی زمین پر اپنے لیے مہمان کا لفظ سن کر آپ کیسا محسوس ہوگا؟‘

سی پیک کے حوالے سے چینیوں کے منصوبوں پر ڈان نیوز پیپر کی حالیہ رپورٹ اس خیال کی توثیق کرتی ہے کہ مقامی باشندے سی پیک کی تعمیر کے حوالے سے رائے مشورے کا حصّہ نہیں۔


پورٹ پر موجود چینیوں کی زندگی

وکٹر جیا کے لیے گوادر کی زندگی قید کی مانند ہے۔ چائنیز اوور سیز پورٹہولڈنگ کمپنی کے مینجر اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھتے ہیں۔ "مجھ سےپوچھیں تو حقیقت تو یہ ہے کہ میں آپ کو گوادر کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتا۔ اس شہر کی زندگی کسی ہے اس کا مجھے مشکل سے ہی کچھ تجربہ ہے کیونکہیہ تجربہ تبھی حاصل ہوسکتا ہے جب آپ مقامی لوگوں سے ملیں، ان کے کلچر،میوزک، طرز زندگی اور سیاسیات کو سمجھیں۔ انہوں نے ایک نیا مشغلہ ڈھونڈلیا ہے ۔۔۔۔۔۔ مچھلی پکڑنا۔ "میں ہر ویک اینڈ پر فشنگ کے لیے جاتا ہوں۔"بہرحال اس پر بھی کئی پابندیاں ہیں۔ وہ صرف پورٹ پر فشنگ کرسکتے ہیں، صرفچینل کے اندر میرین سیکیورٹی ایجنسی کی کڑی نگرانی میں۔ جب کبھی شہرجانا ہوتا ہے تو وہ بھی ہمیشہ گروپ کی شکل میں، سخت پہرے میں جانا ہوتا ہے۔ مقامی لوگہمارے ساتھ تصویریں بنانا چاہتے ہیں۔ ’حالانکہ سیکیورٹی والے خاصے سخت ہیںپھر بھی میں اکثر انہیں کہتا ہوں کہ لوگوں کو ہمارے ساتھ سیلفی لینےدیں‘۔ لگ بھگ 300 غیر ہنرمند کارکن اور ہنرمند انجنیئراور سینئرانتظامی عہدوں پر فائز چینی پورٹ میں رہ رہے ہیں۔ سیکیورٹی وجوہات کی بناپر یہ سب ایک کالونی میں رہ رہے ہیں جو صرف دو مہینے کے اندر تیار کیگئی۔ یہ رہائشی کالونی دیکھنے میں خاصی سادہ لگتی ہے لیکن یہاں جمنازیمہے، ایک ٹیبل ٹینس اور اسنوکر روم ہے حتیٰ کہ مصنوعی گھاس پر مبنی چھوٹاسا فٹ بال فیلڈ بھی ہے۔ وہ چھے مہینے کام کرتے ہیں اور پھر تین ہفتے کےلیے چھٹیوں پر چین جاتے ہیں۔ چار چینی شیف ان کے لیے روزانہ تازہ کھاناتیار کرتے ہیں۔ COPHC کے ڈپٹی مینجر داداللہ یوسف بتاتے ہیں کہ "تمامراشن یا تو مقامی مارکیٹ سے خریدا جاتا ہے یا پھر کراچی سے بھجوایا جاتاہے، ۔" COPHC کے چیئرمین ژانگ باؤژونگ کے لیے اصل چیلنج 20سال میںگوادر کی تکمیل ہے۔ "دبئی جیسا نہیں اور نہ ہی شینزین جیسا، بلکہ اندونوں سے کہیں اعلیٰ۔" سفید شلوار قمیض میں ملبوس، سلیقے سے بال بنائے،نرم مسکراہٹ کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ وہ گوادر کو ایک "کوری سلیٹ" کیمانند دیکھتے ہیں اور جب چینی واپس اپنے گھر جائیں گے تو وہ اپنے پیچھے"خوش اور زیادہ خوشحال " لوگ چھوڑ کر جائیں گے۔ "تب اس کی اصل قدرسامنے آئے گی۔" انہوں نے یہ بات چینی سفیر کے لیے پریزنٹیشن کی تیاری کےلیے جاتے ہوئے کہی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ماہی گیر اس بات سے متفق ہوتے ہیںیا نہیں۔ اب تک تو ان سے رجوع نہیں کیا گیا۔


پیشہ وارانہ تربیت: کیا مقامی لوگوں کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا؟

چینی کمپنی کا کہنا ہے کہ ماہی گیروں کے ذریعہ معاش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور یہ کہ جب پورٹ پر فیکٹریاں لگ جائیں گی ملازمتوں کی کمی نہیں رہے گی۔ مقامی باشندے داد اللہ یوسف، جو COPHC کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سیکشن میں بطور ڈپٹی مینیجر کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ "ان سب کو اپنے پیشے سے متعلق کام مل جائے گا چاہے وہ مچھلی کی پروسیسنگ ہو یا ویلیو ایڈیشن"۔

فی الوقت پورٹ اور کشتیاں ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ — فوٹو شبیر احمد/دی تھرڈ پول

"اور وہ جو بطور ماہی گیر ہی کام کرنا چاہتے ہیں انہیں سمندر میں جانے کے لیے ٹیکنالوجی، جال، کشتیاں اور انجن فراہم کیے جائیں گے۔" یوسف کے مطابق اندازہ ہے کہ بیس سال میں گوادر اور پاکستان کے دوسرے حصّوں سے کوئی 20 لاکھ افراد کو بشمول بیس ہزار چینی گوادر پر ملازمتیں ملیں گی۔ " وہ مارکیٹ ریٹ پر ماہی گیروں سے مچھلی خریدیں گے، اس طرح آڑھتیوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں گے۔"

لیکن ماہی گیروں کو اس پر یقین نہیں۔ جیسے جیسے ہنرمند ورکر گوادر پہنچ رہے ہیں، کم مہارت کے حامل ان پڑھ مقامی باشندے پیچھے رہ جائیں گے۔ مقامی لوگوں میں خوف واضح ہے۔ "ہم ماہی گیری کے سوا کچھ نہیں جانتے"، آپ جہاں جائیں آپکو یہ سننے کو ملے گا۔

مقامی ماہر تعلیم اور شاعر کے بی فراق کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کے نئے راستے کھلنے کی ضرورت ہے اگر ان کے پیشے ختم ہونے جارہے ہیں تو انہیں پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعہ نئے ہنر سکھائے جائیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں ویسے ہی بہت دیر ہوگئی ہے، اس کام کو سب سے پہلے ترجیح دی جانی چاہیے تھی، سال 2000 میں پورٹ کی تعمیر شروع ہونے سے بھی پہلے۔"

وہ کہتے ہیں کہ "ترقی کا تعلق معاشی پیداوار سے ہے، سماجی و افرادی لاگت ریاست کے ریڈار میں نہیں آتی۔ مقامی لوگوں کو پورٹ کی کارروائیوں میں اس لیے شامل نہیں کیا جاتا کیوں کہ وہ ہنرمند نہیں۔ ماہی گیروں کو کبھی بھی اپنے پیشہ جدید بنانے اور اپنی کشتیوں کو بہتر بنانے کے لیے سپورٹ نہیں کیا گیا۔"


توانائی اور پانی کا مسئلہ

پورٹ کے اندر بجلی، پانی اور گیس کی فراوانی ہے۔ پورٹ مہنگے فرنس آئل پرچلنے والے چار اعشاریہ پانچ میگا واٹ کے پاور پلانٹ کے ذریعہ اپنی بجلیخود بناتا ہے۔ تین لاکھ اسی ہزار لیٹر کا ڈی۔سیلینیشن پلانٹ روزانہموجودہ ضرویات کے لیے پانی فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام آسائشیں پورٹپر دستیاب ہیں یا پھر علاقے کے واحد فائیو اسٹار ہوٹل میں۔ باقی ماندہعلاقہ بجلی کی طویل بندش کے دوران اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔ چاروںطرف سمندر سے گھرے ہونے کے باوجود، پانی گوادر کے لیے ایک قیمتی خزانہہے۔۔۔۔۔ پینے کے پانی کی شدید قلّت کا شکار صحرائی شہر۔ پورٹ کیکارروائیاں بڑھنے اور GPFZ بن جانے کے بعد بجلی اور پانی کی طلب مزیدبڑھیں گی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومت گوادر سے چالیس کلومیٹردور کروٹ میں ایک سو پچاس میگا واٹ والے کوئلے کے دو پاور پلانٹ لگانے کاارادہ رکھتی ہے جنکی لاگت 55 ارب روپے (52 کروڑ امریکی ڈالر) ہے۔ یہپروجیکٹ بنا کسی نیلامی کے پہلے ہی چینی سرکاری فرم کو دے دیا گیا ہے۔
داداللہ یوسف کہتے ہیں کہ GPFZ کوئلے سے بننے والی بجلی استعمال نہیں کرےگا۔ " میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ہم نے حال ہی میں سرمایہ کاروں کے ساتھماحولیاتی معاہدہ دستخط کیا ہے جس کے مطابق ہم آلودہ ایندھن استعمال نہیںکریں گے۔ حکومت ایک 2050 ماسٹرپلان تشکیل دے رہی ہے جس میں پانی سےمتعلق تمام مسائل جیسے پانی کی فراہمی، تقسیم، سیوریج کا انتظام اورٹریٹمنٹ پلانٹ شامل ہیں جنکی لاگت کا اندازہ تقریباً 13 کروڑ امریکی ڈالرلگایا گیا ہے۔ فی الوقت، ٹاؤن کے مکین پینے کا پانی کا مطالبہ کر رہےہیں۔ (گوادر اور آس پاس کے علاقوں کے لیے پانی کا وسیلہ) انقرہ۔کور بندمطلوبہ ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے۔ شہر کی روزانہ طلب 46 لاکھ گیلن پانیہے، جو کہ توقع ہے 2020 تک 1 کروڑ 20 لاکھ گیلن ہوجائے گی۔ نئے بند اورپلان شدہ ڈی۔سیلینیشن پلانٹ مقامی لوگوں کی صاف پانی کی ضرورت پوراکرسکیں گے۔ بہرحال، حقائق کچھ خاص واضح نہیں۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہپچھلے پانچ چھ سالوں سے پانی کا مسئلہ بھگت رہے ہیں۔ حکومت کو وقتاًفوقتاً ہنگامی طور پر میران اور بیلار ڈیمز سے ٹینکر پر پانی منگوانا اورگھر گھر فراہم کرنا پڑتا ہے۔


لیکن حکام کے مطابق مہارتوں کی تربیت پورٹ کی تعمیر کے دوسرے مرحلے کا حصّہ ہے۔ وہ دو سال سے گوادر میں پیشہ ورانہ تربیت کا مرکز بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا گیا کہ "فزیبلٹی اور ڈیزائن بلآخر مکمّل ہوچکے ہیں اور اگلے چند ہفتوں میں باقاعدہ کام شروع ہوجائے گا۔ یہاں سترہ کلاسز ہیں جن کی مرمّت کی جائے گی اور دو ماہ کے اندر اندر موٹر چلانے، کرین اور فورک۔لفٹر کی دیکھ بھال، ویلڈنگ اور چینی زبان کے کورسز کروائے جائیں گے، ۔

لیکن اگر مقامی لوگ یہ ہنر سیکھ بھی لیں، تب بھی وہ اتنا نہیں کما پائیں گے جتنا ابھی کماتے ہیں۔ ایک ہفتے میں ماہی گیر 20 ہزار روپے (188امریکی ڈالر) سے 50 ہزار روپے (471 امریکی ڈالر) تک کماتے ہیں۔

پورٹ پر ایک غیر ہنرمند کارکن کی تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ ہے اور ہنرمند مزدور 28 ہزار روپے (264 امریکی ڈالر) سے 50 ہزار روپے ماہانہ تک کما پاتے ہیں۔ ان کی آمدنی موجودہ کمائی کا ایک چوتھائی یا شاید اس سے بھی کم تک گر جائے گی۔

مقامی لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

پورٹ کے اطراف میں بھاری سیکیورٹی نے ماہی گیروں کو مزید عدم تحفظ کا شکار کردیا ہے۔ افواجِ پاکستان نے تیس ہزار اہلکاروں پر مشتمل سیکورٹی فورس تیار کی ہے تاکہ انفراسٹرکچر اور سی پیک کے چینی ورکرز کی حفاظت ہو سکے، خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں جہاں افسران کے دعوے کے مطابق مزاحمت کار پوری اسکیم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

"ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اپنا قومی شناختی کارڈ اور فشنگ لائسنس اور حتیٰ کہ اپنی کشتی کی فوٹو بھی ساتھ رہنے کو کہا جاتا ہے، جیسے ہم کوئی دہشتگرد ہیں"، مقامی مکین الہٰی بخش نے شکوہ کیا۔

گزشتہ ماہ الہٰی بخش کو لوہے کی راڈ سے بری طرح پیٹا گیا جب اس کی کشتی ایک خیالی حد پار کر کے سیکورٹی فورسز کی اصطلاح میں "ریڈ زون" میں داخل ہوگئی، یہ پورٹ کے قریب واقع ایک دو کلومیٹر طویل آبی چینل ہے۔

الہٰی بخش کے مطابق "یہ ہمارا سب سے اہم ماہی گیری کا مقام ہے جہاں ہم صدیوں سے مچھلیاں پکڑتے آئے ہیں، اور یہ جگہ چھوڑنے کا کہنا ناانصافی ہے۔ چند چینیوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں چھوٹے ماہی گیروں کا ذریعہ معاش نظرانداز کردیا گیا ہے۔"

الہٰی بخش شکوہ کرتے ہیں کہ جب کوئی معزز مہمان گوادر کا دورہ کرنے آتے ہیں، اور ایسا اکثر ہی ہوتا ہے، تب ماہی گیروں کو سمندر پر جانے سے پابند کردیا جاتا ہے۔ "جس دن ہم سمندر پر نہیں جاتے اس دن گھر پہ کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔"

علاقے کے ضعیف مکین خدا بخش ملاح کہتے ہیں کہ "اس سائیڈ کی سمندری تہہ مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائش کے لیے انتہائی مناسب جگہ ہے لیکن پورٹ پر ہونے والے کام کی وجہ سے اس میں خلل پڑ رہا ہے"۔

فراق کہتے ہیں کہ ایک بار ماہی گیر کہیں اور منتقل ہوگئے تو کشتی بنانے والے، برف کی فیکٹریاں، پانی، ایندھن، ویلڈنگ اور موٹر کی مرمّت جیسے پیشوں سے وابستہ لوگ بھی متاثر ہوں گے۔

بہرام بلوچ واضح کرتے ہیں کہ "مسئلہ یہ ہے کہ اگر مقامی مکین اپنے خدشات کا اظہار کریں تو انہیں سی پیک کے خلاف سمجھا جاتا ہے، یہ ایک قومی ایجنڈا اور مقدس سمجھا جانے لگا ہے"۔ ماضی میں لوگ سڑکوں پر نکلتے تھے، احتجاج کرتے تھے، لیکن اب یہ سب بند ہوگیا ہے۔ بہرام کے مطابق "لوگوں کو سیاسی اور معاشی دونوں طریقوں سے خاموش کردیا گیا ہے۔"

پورٹ کی تعمیر سست رفتار ہے

800 چینی اور پاکستانی کارکنان کی موجودگی کے باوجود یہ پورٹ اور فری زون بڑی سنسان جگہ ہے۔ داد اللہ یوسف کے مطابق پورٹ کے اندر کوئی تین سو پاکستان نیوی کے جوان تعینات ہیں،

میری ملاقات کے موقع پر وہاں پر کوئی بحری جہاز نہیں کھڑے تھے ناہی ٹرک پر سامان چڑھایا یا اتارا جارہا تھا۔ گوادر پورٹ اتھارٹی چیئرمین کے پرائیویٹ سیکرٹری، شبیر احمد نے مجھے یقین دلایا کہ "جہاز آتے جاتے رہتے ہیں"، میری آمد ایک "غیر متوقع" دن کو ہوئی ہے۔ وہ پورٹ کے سب سے پرانے ملزمین میں سے ایک ہیں اور 2004 سے یہاں ملازم ہیں۔

مارچ 2008 میں جب پہلا بحری جہاز یہاں لنگر انداز ہوا تھا تب سے آج تک یہاں کم از کم 200 بحری جہاز گندم سے لیکر کھاد تک، کھجوروں سے لے کر اونٹ تک لے کر آئے ہیں۔

"ہم پاکستان سے اب تک صرف سارڈینز کے کنٹینر ہی باہر بھیج سکے ہیں"، یوسف نے بتایا۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چین گوادر کو بحیرہ عرب کے تجارتی راستے سے زیادہ ممکنہ بحری اڈہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ پاکستانی حکمران اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پالیسی ریفارم یونٹ کے سابق سربراہ جناب قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ "گوادر میں بحری مفاد واضح ہے لیکن ایک مضبوط اقتصادی مفاد بھی ہے۔"

پہلے مرحلے میں، پورٹ 17 ارب روپے کی لاگت سے پاکستان اور چین کی حکومتوں کے مشترکہ تعاون سے تیار کیا گیا تھا اور مارچ 2007 میں اس کا افتتاح کیا گیا تھا۔ پھر 40 سال کے لیے ایک رعایتی معاہدے کے تحت اس کا کنٹرول پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی (PSA) کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

تاہم، پی ایس اے پورٹ میں توسیع کرنے یا کاروبار لانے میں ناکام رہی چنانچہ سال 2013 میں رعایتی حقوق واپس COPHC کو منتقل کردے گئے۔

کسی بھی وقت، پورٹ پر 50,000 ڈیڈ ویٹ ٹن (DWT) گنجائش والے دو یا تین بڑے بحری جہاز لنگرانداز ہوسکتے ہیں۔ سال 2045 تک پورٹ 150 بحری جہازوں اور 40 کروڑ ٹن کارگو رکھنے کے قابل ہوجائے گا، ساتھ ہی مختلف لاجسٹکس خدمات، وسیع اسٹوریج کی سہولت اور نو مربع کلومیٹر کا ایک صنعتی فری ٹریڈ زون (GPFZ) بھی موجود ہوں گے۔

GPFZ کا پہلا مرحلہ سال 2018 کے اوائل میں مکمّل ہوجائے گا اور اس میں شامل ہونگے ایک پائپ پلانٹ، ایک کولڈ اسٹوریج اور فش پروسیسنگ ایریا، ایک ای۔بائیک فیکٹری اور چینی مصنوعات کے لیے ڈسپلے سینٹر۔ پورا زون سات سے آٹھ سالوں میں مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گا، یہاں چار سو کمپنیز ہونگی اور پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے۔

واپس شہر کی جانب

گوادر شہر اب سویا ہوا نہیں ہے لیکن ابھی یہ پوری طرح جاگا بھی نہیں ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے فش ہاربر کی شاہراہ پر دوسرے سمندر کنارے شہروں کی طرح سیاح نظر نہیں آتے، اور نہ ہی سمندری کھانوں کے ریسٹورنٹ اور نا ہی یادگاری تحائف کی دکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں ریئل اسٹیٹ کے دفاتر تو نظر آتے ہیں لیکن سرمایہ کار نہیں۔ ان دفاتر کے اندر لوگ بیکار بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔

ڈویلپر اور سرمایہ کار مستقبل کے حوالے سے پرامید ہیں اور زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ لیکن بہت سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 2000 کے عشرے میں جب پورٹ تعمیر ہورہا تھا تب انہوں نے اپنی زمینیں بہت سستے داموں بیچ دیں۔

اس نئی لہر میں یہ "باہر والے" ہیں جو زمینیں مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔ ایک بڑے رئیل اسٹیٹ گروپ، رفیع گروپ نے پچھلے سال دس گنا منافع کمایا ان زمینوں کی فروخت سے جو اس نے بارہ سال پہلے خریدی تھیں۔

سچ تو یہ ہے کہ لگتا ہے غریب مچھیروں کے علاوہ یہاں ہر کوئی فائدہ حاصل کر رہا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ پر شائع ہوا، اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔