پاکستان

حسین نواز سےجے آئی ٹی کی 5 گھنٹے تفتیش

وزیراعظم کے صاحبزادے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے اور پوچھے سوالات کے جوابات دیئے۔

وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپرز کی تفتیش کے لیے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے دوبارہ پیش ہوئے۔

جے آئی ٹی کے سامنے 5 گھنٹے سے زیادہ وقت گزارنے کے بعد حسین نواز کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو سوالات پوچھے گئے ان کے جوابات دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر قانونی نظام کے تحت ہم سے سوالات پوچھے جارہے ہیں اور ہم اس کے جوابات دے رہے ہیں جس کا مقصد یہی ہے کہ ہم قانون کا احترام کررہے ہیں۔

حسین نواز نے جے آئی ٹی میں پھر پیش ہونے کے حوالے سے کہا کہ انھیں ابھی کوئی سمن جاری نہیں ہوا اور اگر بلایا گیا تو پیش ہوں گے۔

گذشتہ روز پاناما تحقیقات کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

حسین نواز نے دوسری پیشی کے بعد کہا اگر مجھے لگا کہ کسی رکن کی جانب سے صحیح برتاو نہیں کیا جارہا ہے تو میں دوبارہ عدالت جاوں گا۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کے دو ارکان پر حسین نواز کا اعتراض مسترد

جسٹس عظمت سعید شیخ کا کہنا تھا کہ تحفظات ہیں تو آپ انتظامات کریں، طارق شفیع کو کسی دعوت پر نہیں تفتیش کے لیے بلایا گیا تھا، ان دو افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے جو وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کے ماہر ہیں۔

خیال رہے کہ حسین نواز نے ای میل کے ذریعے رجسٹرار سپریم کورٹ کو عدالت کے حکم پر پاناما لیکس کی مزید تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے ممبران بلال رسول اور عامر عزیز پر اعتراض اٹھایا تھا۔

اس سے قبل 28 مئی کو حسین نواز اپنے وکیل کے ہمراہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان ریکارڈ کرانے کیلئے پیش ہوئے تھے، تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانے کے بعد سیکیورٹی کے پیش نظر حسین نواز جوڈیشل اکیڈمی کے عقبی دروازے سے میڈیا کے نمائندوں سے بات کیے بغیر روانہ ہوگئے تھے۔

جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے قبل حسین نواز نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے کوئی سوال نامہ نہیں دیا گیا جبکہ جے آئی ٹی نے مجھ سے کوئی خاص دستاویزات بھی نہیں مانگیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما تحقیقات: حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش

ان کا کہنا تھا کہ اپنے وکیل کے ساتھ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہورہا ہوں، میں کسی مفروضے پر بات نہیں کرنا چاہتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کروں گا۔

جے آئی ٹی افسران پر حسین نواز کا اعتراض

رواں ہفتے کے آغاز میں وزیراعظم نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز کے حوالے سے بتایا جارہا تھا کہ انھوں نے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ حسین نواز نے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ حکمران خاندان کے خلاف الزامات کی تحقیقات کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے چھ افسران کو خود کو جے آئی ٹی سے علیحدہ کرلیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں شامل ایک افسر سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کے قریبی دوست ہیں اور وہ اِس وقت انتہائی سرگرم تھے جب خصوصی عدالت میں غداری کیس کی سماعت جاری تھی۔ اس کے علاوہ ٹیم کے ایک رکن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پنجاب کے سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے رشتہ دار ہیں، جو پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے بانی ہیں جو اس وقت پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) افسر امیر عزیز اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال رسول وہ دو افسران ہیں جن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔