پاکستان

لاہور: اساتذہ نے نویں کلاس کی طالبہ کو تیسری منزل سے دھکا دے دیا

سرکاری اسکول کی 2 اساتذہ نے طالبہ کو 'کلاس روم صاف نہ کرنے' کی پاداش میں تیسری منزل سے دھکا دیا، جسے شدید چوٹیں آئیں۔

لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سرکاری اسکول کی 2 اساتذہ نے نویں جماعت کی ایک طالبہ کو 'اپنی باری پر کلاس روم صاف نہ کرنے' کی پاداش میں مبینہ طور پر تیسری منزل سے نیچے پھینک دیا، جس کے نتیجے میں طالبہ کو شدید چوٹیں آئیں۔

مذکورہ اساتذہ کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

14 سالہ طالبہ فجر نور اس وقت لاہور کے گُھرکی ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے جسم کے مختلف حصے فریکچر ہونے کے ساتھ ساتھ ریڑھ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ہے۔

ہسپتال میں موجود طالبہ کے والدین اس بات پر حیران پریشان ہیں کہ اساتذہ اتنا غیر انسانی سلوک کیسے کرسکتے ہیں، انھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ نہ صرف ان کی بیٹی کا بہترین علاج معالجہ کرایا جائے بلکہ اس عمل کے ذمہ داران کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے۔

مزید پڑھیں: لاڑکانہ کے نجی کیڈٹ کالج میں طالب علم تشدد سے معذور

یہ واقعہ لاہور کے علاقے شاہدرہ، کوٹ شہاب الدین میں واقع سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ گرلز اسکول میں رواں ماہ 23 مئی کو پیش آیا، تاہم اسکول انتظامیہ اور دیگر عہدیداران نے اسے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے خفیہ رکھا۔

پنجاب کے سیکریٹری ایجوکیشن (اسکولز) ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے ڈان کو تصدیق کی کہ دو سینئر اساتذہ ریحانہ کوثر اور بشریٰ طفیل نے پہلے طالبہ فجر نور کی پٹائی کی اور پھر اسے اسکول کی تیسری منزل سے نیچے دھکا دے دیا۔

انھوں نے بتایا، 'ہمیں واقعے کے بارے میں علم ہفتہ (27 مئی) کو ہوا، اس حوالے سے محکمہ جاتی انکوائری کا آغاز کیا جاچکا ہے اور واقعے کو مکمل تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ کی انسپکشن ٹیم کو بھی بھیجا جاچکا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: میرپور: نجی اسکول پرنسپل کا طلبا پر بہیمانہ تشدد

ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے بتایا، 'وزیراعلیٰ نے واقعے کو چھپانے پر فوری طور پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر احسان ملک، ڈپٹی ڈی ای او طیبہ بٹ اور ہیڈمسٹریس نغمانہ ارشاد کو معطل کردیا جبکہ واقعے میں ملوث دونوں اساتذہ کو بھی معطل کردیا گیا اور ان کے خلاف پنجاب ایمپلائز ایفیشینسی اینڈ ڈسپلنری ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نہ صرف دونوں اساتذہ کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی بلکہ طالبہ کے مکمل علاج کے اخراجات بھی برداشت کرے گی، انھوں نے بتایا، 'نور کی زندگی خطرے سے باہر ہے اور ڈاکٹرز اس حوالے سے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر دوبارہ چل سکے'۔

تاہم نور کے والدین حکومت کی جانب سے کی گئی اب تک کی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: تاخیر سے اسکول آنے پر پرنسپل کا معصوم بچوں پر وحشیانہ تشدد

طالبہ کی والدہ رخسانہ بی بی نے نمائندہ ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا، 'اگرچہ ڈاکٹر اللہ بخش مالک ہسپتال آئے اور ہمارے تحفظات سنے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی آکر ان کی بیٹی کی حالت دیکھنی چاہیئے، وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہے'۔

اسکول انتظامیہ کی جانب سے واقعے پر پردہ ڈالنے کے حوالے سے بتاتے ہوئے رخسانہ بی بی نے بتایا، 'انھوں نے ہمیں اطلاع دی کہ نور سیڑھیوں سے گر گئی ہے اور اسے شدید چوٹیں آئی ہیں، جب ہم میو ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ اس کے جسم کے مختلف حصوں پر فریکچر آئے ہیں اور اس کی ریڑھ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ہے، انھوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنی بیٹی کو بہتر علاج کے لیے گُھرکی ہسپتال کے اسپائن سینٹر منتقل کردیں'۔

واضح رہے کہ میو ہسپتال میں ہوش میں آنے کے بعد طالبہ فجر نور نے بتایا تھا کہ 'میری کلاس ٹیچرز بشریٰ اور ریحانہ نے مجھے حکم دیا کہ میں کلاس روم صاف کروں کیونکہ 23 مئی کو صفائی کی ذمہ داری میری تھی، میں نے انھیں بتایا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، لہذا میں کسی اور دن یہ کام کرلوں گی، جس پر وہ مجھے ایک دوسرے کمرے میں لے گئیں اور مجھے مارنا شروع کردیا ، اس کے بعد اساتذہ مجھے چھت پر لے گئیں اور حکم دیا کہ میں یہ جگہ صاف کروں، جب میں نے بحث کی تو انھوں نے مجھے چھت سے نیچے دھکا دے دیا'۔

یہ بھی پڑھیں: چترال: بچوں پر پرنسپل کے تشدد کے بعد نجی اسکول سیل

طالبہ فجر نور اپنے 5 بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں، ان کے والد محمد اکبر ایک وین ڈرائیور ہیں۔

انھوں نے بتایا، 'میں 24 مئی کے بعد سے کام پر نہیں جاسکا، فی الوقت میں صرف اپنی بیٹی کی صحت کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہوں، جو خود بھی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے، صرف اپنی اساتذہ کی وجہ سے، جو درد ناک ہے'۔

دوسری جانب شاہدرہ ٹاؤن پولیس نے مذکورہ اساتذہ کے خلاف اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا، ایک پولیس افسر نے بتایا، 'پولیس ٹیمیں اساتذہ کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہیں، تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی'۔

یہ خبر 29 مئی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی