'بھارتی فوجیوں نے بچپن میں مجھے بھی ڈھال بنایا تھا'
"مجھے بچپن میں ایک انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ ایک طویل عرصے سے یہ بات کسی بوجھ کی طرح میرے اوپر سوار تھی مگر اب لگتا ہے کہ مجھے یہ بات کہہ دینی چاہیے۔"
انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کے لیے ہندوستانی فوج کی گاڑی سے بندھے فاروق احمد ڈار کی ویڈیو نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھلے ہی پوری دنیا میں توجہ مبذول کی ہو، مگر کشمیر میں یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایسی کہانیاں یہاں پر ہی جنم لیتی ہیں اور یہیں پر دفن ہو جاتی ہیں۔
اس بات کا میں خود شاہد ہوں۔ بچپن میں مجھے بھی انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ ایک طویل عرصے سے یہ بات کسی بوجھ کی طرح میرے اوپر سوار تھی مگر اب لگتا ہے کہ مجھے یہ بات کہہ دینی چاہیے۔"
وہ 1999 کی ایک شام تھی، میری عمر مشکل سے 6 سے 7 برس رہی ہوگی، حبیب چاچا— اپنی عمر کے 60 دہائی کے پیٹے میں تھے، چہرے پر جھریاں تھی اور ہمیشہ اداسیوں میں ڈوبے نظر آتے تھے — کو یہ ذمہ دیا گیا تھا کہ وہ ہر گھر جا کر اگلے دن ان کے وئیر کے بارے میں اطلاع دے۔ حبیب چاچا نے اپنی کرخت آواز میں کہا، "سبیس چو وئیر۔"
ان دنوں وئیر (فوجی قافلے کی ڈیوٹی) ہندوستانی فوج کی جانب سے مسلط کردہ احکامات ہوتے تھے۔ ہر گاؤں سے روٹیشن کی بنیاد پر 6 آدمیوں کو دھماکہ خیز مواد کی تلاش اور پیٹرول پارٹیوں کے لیے راستہ صاف کرنے کا ذمہ دیا جاتا تھا۔
ایسا کام انجام دینے کے لیے یہ سب سے سستا ترین طریقہ تھا اور ان کے پاس تو اس کام کے لیے کشمیر کی پوری آبادی ہی دستیاب تھی۔
میں بطور ایک بچہ ہمیشہ سستے ایڈوینچرز اور چیلنجز کے لیے تیار رہتا تھا۔ میں خود کو کسی سپر ہیرو سے کم نہیں سمجھتا تھا، اور اپنی کھلونا پستول سے دنیا کو بچانے کی تمنا ہوتی تھی۔ میرے لیے، وئیر بھی ایک ایڈوینچر کی ہی طرح تھی۔ مجھے تب تک کچھ پتہ نہ تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے جب تک کہ میں اس کی زد میں نہیں آیا تھا۔
میری والدہ بیمار تھیں، انہیں میرے والد اور بڑے بھائی ہسپتال لے کر گئے ہوئے تھے۔ اب یا تو مجھے جانا تھا یا پھر میری بہنوں میں سے کسی ایک کو، میں نے خود کا انتخاب کیا۔
مزاحمت کرنے والوں کو شدید تشدد کے لیے تیار رہنا ہوتا تھا— جس کے بارے میں مجھے کچھ پتہ ہی تھا۔ اگر حکم پر کوئی حاضر نہ ہوتا تو فوجی ایسے افراد کو اپنی کیمپ میں لے جاتے اور بجلی کے جھٹکوں اور دیگر طریقوں کی اذیتوں کا نشانہ بناتے۔
اس رات میں تجسس کی وجی سے سو ہی نہیں پایا تھا۔ بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے میں اپنی کھلونا بندوق کی طلسماتی طاقت سے دنیا کو بچانے کے لاکھوں طریقوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ ہمارے بھچ کاگ (حبیب چاچا کو لوگ اسی نام سے پکارتے تھے) کی پکار میرے ذہن میں تب تک گونجتی رہی جب تک مؤذن نے اذان نہیں دی تھی، اذان کا مطلب تھا کہ اب مجھے تیار ہونا چاہیے۔
میں بستر سے فوراً نکلا اور اپنی بہن کے پاس گیا، جس نے نن چائے (نمکین چائے) اور مکئی ٹکتھوٹ (چپاتی) بنائی تھی۔
میری بہن نے میرے بکھرے بالوں کو اپنے ہاتھ سے سیدھے کرتے ہوئے کہا، "لئیج سئی بلائی" (اپنا خیال رکھنا)۔ وہ پریشان تھی مگر اس وقت ان کی پریشانی کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ ہاتھوں میں چپاتی اور منہ میں ایک لقمہ لیے میں دوڑ کر بھاگا۔ میں عام طور پر اہنی کھلونا بندوق کمر بند میں رکھتا تھا لیکن جوش خروش میں اپنے ساتھ لانا ہی بھول گیا تھا۔
سڑک کے دوسری طرف پانچ دیگر افراد میرے انتظار میں کھڑے تھے۔ میں مکئی ٹکتھوٹ کھاتے اور کوئی دھن گنگناتے ان کے سامنے سے گزرا۔
"مول کاٹی چوئی؟" (تمہارے والد کہاں ہیں؟) راشد کاک نے مجھ سے پوچھا۔ "ہسپتال" میں نے اس کی طرف دیکھا اور جواب دیا۔ "ہمارے وئیر کے لیے میں آپ کے ساتھ چل رہا ہوں۔" راشد کاک اس بات سے خوش دکھائی نہیں دیے اور کچھ کہنے لگے، مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے مجھے کیا کہا تھا۔
جب ہندوستانی فوج پہنچی تو عامر نے زور زور سے "جے ہند، جے ہند" کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ میں نے بھی بشمول ان پانچ افراد کے اس کے نعروں کے جواب میں جے ہند جے ہند نعرے لگائے۔ شاید فوجیوں کے لیے سب سے زیادہ خوشی کا باعث کشمیریوں سے جے ہند کے نعرے لگوانا ہوتا ہے۔
میں ان پانچ کشمیریوں کے چہروں پر چھایا خوف اور پریشانی دیکھ سکتا تھا، لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
وہ پانچ ایک ساتھ نعرے لگاتے رہے تو میں ان سے مقابلہ کرتے ہوئے اور بھی زور سے نعرے لگانے لگا۔ ایک فوجی گل کاک کو مارنے لگا، مجھے اب بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیوں اسے مار رہا ہے۔ کھلونا بندوق گھر چھوڑ آنے پر مجھے پچھتاوا ہونے لگا کیونکہ میں اس فوجی سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ایک فوجی نے مجھ سے پوچھا کہ، "کہاں ہے تمہارا حرامی باپ؟ اس نے تمہیں مرنے کے لیے بھیج دیا ہے کیا؟"۔ پھر وہ میرے قریب آیا اور اپنی انگلیوں سے میرا گال زور سے دباتے ہوئے کہا، "بولو"۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ، "میری والدہ کی طبیعیت ٹھیک نہیں۔ میرے والد اور بھائی انہیں ہسپتال لے کر گئے ہیں۔"
اس نے کہا، "یاد رکھو، یہ کام دنیا کے باقی سارے کاموں سے زیادہ ضروری ہے۔" میں نے حیرت انگیزی میں سر ہلا کر جواب دیا؛ مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ آخر ہو کیا رہا تھا وہاں۔
ہم اپنے گھر سے اپنے ساتھ لاٹھیاں لائے تھے، ہمیں آگے چلنے کو کہا گیا۔ ہم اپنی لاٹھیوں سے راستے کا معائنہ یا اسکیننگ کر رہے تھے جبکہ وہ ہمارے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ "سالو آزادی چاہتے ہو" وہ ہمیں پیچھے سے گالیاں دے رہے تھے، مگر ہم خاموشی کے ساتھ راستے کا معائنہ کر رہے تھے۔
ایک جگہ مجھے زمین دوز نالے کے اندر جانے کو کہا گیا، فوجیوں میں سے کسی ایک نے حکم دیا کہ، "چھوٹے دہشتگرد، اس کے اندر جاؤ۔" میں ہچکچایا اور رک گیا مگر پیچھے سے زور دار دھکے نے مجھے اندر کی طرف دھکیل دیا۔ وہاں اندھیرا تھا، میرا جسم لرزنے لگا تھا۔ میں نے ہمت سمیٹی اور رینگتے ہوئے اندر کی طرف جانے لگا۔ بالآخر 10 منٹوں کی جدوجہد کے بعد میں نالے کے دوسرے سرے سے باہر نکل آیا۔
میرے گھٹنے اور ایڑیوں پر چوٹیں لگی تھیں اور خون بھی بہہ رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ کس لمحے میں نے رونا شروع کر دیا تھا۔ میرے لبوں پر صرف "موجائے، موجائے" (ماں، ماں) کی پکار تھی۔
پہلی بار ایڈوینچرز کے لیے میرا جوش و خروش خوف میں تبدیل ہو گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کبھی بھی خود کو اس ذلت سے آزاد نہیں کر پاؤں گا۔ مگر اس دن مجھے احساس ہوا کہ میری کھلونا بندوق میں کوئی طلسماتی طاقت نہیں اور نہ ہی میں سپر ہیرو ہوں۔
اس شام گھر پہنچ کر میں نے اپنی کھلونا بندوق پتھر سے توڑ دی۔ اب نہ مجھے سپر پاورز چاہیے تھے اور نہ ہی دنیا بچانے کی تمنا باقی رہی تھی۔
یہ مضمون پہلے دی وائر پر شائع ہوا اور اجازت کے بعد یہاں شائع کیا گیا۔
وار جاوید سری نگر میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔