پاکستان

پاناما تحقیقات: حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش

جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرانے کے بعد سیکیورٹی کے پیش نظر حسین نواز جوڈیشل اکیڈمی کے عقبی دروازے سے روانہ ہوئے۔

اسلام آباد: پاناما پیپرز کے دعوؤں کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیش ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہونے کیلئے وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی پہنچے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حسین نواز کی آمد کے بعد پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کا اجلاس فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ہوا، جو تقریباََ دو گھنٹے سے زائد جاری رہا۔

حسین نواز اپنے وکیل کے ہمراہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان ریکارڈ کرانے کیلئے پیش ہوئے تھے، تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانے کے بعد سیکیورٹی کے پیش نظر حسین نواز جوڈیشل اکیڈمی کے عقبی دروازے سے میڈیا کے نمائندوں سے بات کیے بغیر روانہ ہوگئے۔

جوڈیشل اکیڈمی میں پیش ہونے سے قبل میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے حسین نواز کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے لیے آیا ہوں، مجھے کل ہی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا نوٹس ملا، جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے لیے صرف 24 گھنٹے کا وقت دیا گیا۔

انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے کوئی سوال نامہ نہیں دیا گیا جبکہ جے آئی ٹی نے مجھ سے کوئی خاص دستاویزات بھی نہیں مانگیں۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی پر اعتراض:حسین نواز کی درخواست پر 29 مئی کو سماعت

ان کا کہنا تھا کہ اپنے وکیل کے ساتھ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہورہا ہوں، میں کسی مفروضے پر بات نہیں کرنا چاہتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کروں گا۔

اس موقع پر حسین نواز کے ساتھ ان کے وکیل عبدالغنی ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔

اس سے قبل مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے 2 ممبران پر اعتراض کیا تھا تاہم اس کے باجود وہ آج ٹیم کے سامنے پیش ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ شریف فیملی عدالت کے ساتھ مکمل تعاون کررہی ہے۔

مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کسی چیز کو مسترد کرنے کا فورم نہیں اور انھیں کسی کا اعتراض مسترد کرنے کا اختیار نہیں۔

بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت پاکستان کے تمام اداروں کا احترام کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان عدالتوں سے اشتہاری ہیں اور ان کے خلاف 2014 سے جے آئی ٹی بنی ہوئی ہے تاہم وہ دو سال میں ایک مرتبہ بھی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔

دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ عوام خود دیکھ لے کون پاکستان کے اداروں کا احترام کرتا ہے، حسین نواز کو پیش ہونے کی ضرورت نہیں تھی، پھر بھی وہ پیش ہوئے۔

جے آئی ٹی افسران پر حسین نواز کا اعتراض

رواں ہفتے کے آغاز میں وزیراعظم نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز کے حوالے سے بتایا جارہا تھا کہ انھوں نے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما طلال چوہدری نے یہ بات گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران بتائی، ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے جے آئی ٹی کے حوالے سے اپنے خدشات سپریم کورٹ تک پہنچا دیئے ہیں۔

اس سے قبل انھوں نے زور دیا تھا کہ نواز شریف کے دونوں بیٹے حسین نواز اور حسن نواز غیر رہائشی پاکستانی ہیں اور وہ مستحق ہیں کہ ان سے دیگر تارکین وطن کی طرح کا سلوک کیا جائے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ حسین نواز نے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ حکمران خاندان کے خلاف الزامات کی تحقیقات کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے چھ افسران کو خود کو جے آئی ٹی سے علیحدہ کرلیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں شامل ایک افسر سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کے قریبی دوست ہیں اور وہ اِس وقت انتہائی سرگرم تھے جب خصوصی عدالت میں غداری کیس کی سماعت جاری تھی۔ اس کے علاوہ ٹیم کے ایک رکن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پنجاب کے سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے رشتہ دار ہیں، جو پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے بانی ہیں جو اس وقت پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) افسر امیر عزیز اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال رسول وہ دو افسران ہیں جن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل اراکین کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

لارجر بینچ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے خصوصی بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، تاکہ پاناما لیکس کیس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات بند گلی میں نہ رہ جائیں۔

2 مئی کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا تھا جس کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل جبکہ دیگر ججز میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

خصوصی بینچ پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے۔