'تمہاری لڑکی کا چال چلن تو ٹھیک تھا نا؟'
'وہ سب سے زیادہ کس کی لاڈلی تھی؟ آخری بار آپ سے کیا فرمائش کر کے اس نے پکوایا تھا؟ پڑھنے میں کیسی تھی؟ اب تو وہ نہیں رہی، آپ کیا کہنا چاہیں گی؟ کوئی اپیل کوئی پیغام کوئی شکوہ کوئی گلہ جو آپ کو سمجھ آئے آپ بتائیں؟'
یہ وہ تمام ممکنہ سوالات ہو سکتے تھے جو 6 سالہ ننھی کلی کے والدین خصوصاً ماں سے کوئی بھی رپورٹر لائیو یا ایز لائیو میں پوچھ سکتا تھا، وہ بچی جس کی لاش منگھوپیر کے ایک خالی پلاٹ سے ملی، جو دو روز سے لاپتہ تھی اور پھر زیادتی کا شکار ہوئی اور اسی کے بالوں کو اس کے گلے کا پھندا بنا کر موت کی وادی میں بھیج دیا گیا۔
میں نے جب اس کی لاش کی تصاویر دیکھیں اور پوسٹ مارٹم میں قتل کی وجہ پڑھی تو اپنے سینئر کرائم رپورٹر سے پوچھا کہ کیا واقعی اس بچی کو اس کے بالوں کا پھندا بنا کر قتل کیا گیا؟ تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر بتایا کہ وہ دیکھ کر آ رہے ہیں، اس بچی کے بال لمبے تھے، بالوں میں پراندہ ڈالے دو چوٹیاں بنی ہوئی تھیں۔
پڑھیے: پاکستان میں 2016 میں یومیہ 11 بچوں کا جنسی استحصال
میں بار بار وہ تصویر دیکھتی رہی، اس کے جسم پر پڑے نشان وحشیانہ ظلم کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی تھے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی کئی معصوم بچیاں زیادتی کا نشانہ بنا کر نالوں، پلاٹوں اور ویرانوں میں پھینکی جا چکی ہیں۔
یہاں صرف یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ پچھلے کئی برسوں میں کتنی کلیاں مسلی گئیں، کتنے بچوں کو جیتے جی مار دیا گیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس گھناؤنے عمل میں ملوث کتنے مکروہ ذہنیت اور کردار کے حامی افراد کو گرفتار کیا گیا اور انہیں سزا دی گئی؟
آج سے دو ماہ قبل بھی ابراہیم حیدری کے علاقے سے زیادتی کا شکار ایک بچی نیم مردہ حالت میں ملی، جس کا گلا تیز دھار آلے سے کاٹا گیا تھا لیکن خدا نے اس بچی کی زندگی رکھی تھی وہ بچ گئی اور اس نے اپنے ساتھ کیے جانے والے ظلم کی داستان بھی بتائی اور ملزمان کو پہچان بھی لیا جو اس کے پڑوس میں ہی رہتے تھے۔
بچی کا طبی معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے کہا کہ انہوں نے اپنے پورے کریئر میں آج تک ایسا انسانیت سوز واقعہ نہیں دیکھا۔ وہ بچی آج ٹھیک ہے لیکن کیا ذہنی طور پر وہ مستقبل میں بھی ٹھیک رہے گی؟
حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق 2016 میں کم عمر بچوں پر 4139 جنسی حملوں کے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 2410 کم عمر بچیاں اور 1729 بچے شامل تھے۔
ان بچوں کی عمریں 8 سے 12 برس بتائی جاتی ہیں، 100 کیسز قتل کے رپورٹ ہوئے جس میں بچوں کو زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان تمام کیسز میں 76 فیصد دیہی اور 24 فیصد شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔ افسوسناک پہلو یہ کہ جنسی حملے میں زیادہ تر ملوث بھیانک چہرے جہاں اجنبی ہوتے ہیں، وہیں ان میں اپنے بھی شامل ہوتے ہیں جو یا تو رشتے دار ہوتے ہیں یا پھر دوست احباب۔
پڑھیے: ڈاکٹر کی زبانی ریپ کی شکار 6 سالہ بچی کو بچائے جانے کی داستان
90 کی دہائی کا ایک ایسا ہی واقعہ مجھے یاد ہے جس کا اثر مجھ پر کافی عرصے تک رہا اور مجھے خوفزدہ کیے رکھا، یہ کیس *اویس نامی بچے کا تھا, عمر غالباً 9 سے 10 برس تھی اور گھر کے باہر سے اغوا کر لیا گیا تھا، والدین سے بچے کی رہائی کے لیے بھاری تاوان طلب کیا گیا۔
کئی دن بعد اس بچے کی لاش گھر کے قریب ایک گراؤنڈ سے ملی، پولیس کی تفتیش کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ اس کے اغوا اور قتل میں کوئی اور نہیں اس کا تایا زاد بھائی کزن ملوث تھا جو اویس کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر اسے ڈھونڈنے کا ڈرامہ بھی کرتا رہا۔
اویس کا خوبصورت ہنستا مسکراتا چہرہ جب جب خبر کے ساتھ ٹی وی اور اخبار پر نظر آتا خوف دل میں بیٹھتا چلا جاتا۔
اس واقعے کی تفصیلات جہاں روز اخبارات میں آیا کرتی تھیں وہیں ٹی وی پر بھی نشر ہوتی تھیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ گھر آنے والے کسی بھی رشتے دار کے ساتھ باہر جانے کا سوچنا تک میں نے ترک کر دیا کہ کہیں میرا بھی حال اویس جیسا ہی نہ ہو جائے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب محلے کے دیگر بچوں کے لیے محلے کے پارک ایک صحتمند تفریح ہوا کرتے تھے۔ بھری دوپہر میں سنسان گلیوں میں گھنٹوں سائیکل چلانا، شام کو کرکٹ کھیلنا، سہیلیوں کے ساتھ برف پانی، کھو کھو جیسے کھیل میں رونق لگائے رکھنا تو اس وقت کا بہترین شغل ہوا کرتے تھے۔
آج کے بچوں کو یہ سب میسر نہیں یہ رونق تب ختم ہوئی جب شہر میں امن ختم ہوا۔ ایک طرف شہر اور ملک کا امن بحال کرنے کے لیے قانون بنائے گئے، اضافی دستے تو رینجرز کی تعیناتی کی گئی وہیں وہ جرائم جو خوفناک بھی ہیں اور ناقابل معافی بھی ان کے تدارک کا کسی کو خیال نہیں آیا۔
پڑھیے: 'میں ہر روز زندہ ہوتا اور پھر مر جاتا'
1999 میں لاہور میں سو بچوں کا قاتل جاوید اقبال جب منظر عام پر آیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سیریل کلر ہے جس نے سو بچوں کو قتل تو کیا ہی تھا لیکن قتل سے قبل بد فعلی بھی کی تھی، گو کہ اس نے جیل ہی میں خودکشی کرلی لیکن اس کایہ عمل طویل عرصے تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ رہا۔
اسی طرح 2015 کا قصور اسکینڈل نے بڑے بڑے لوگوں کو بے نقاب کیا جس میں جنسی استحصال کے ہوشربا اورخوفناک شواہد اور واقعات منظر عام پر آئے۔
میڈیا یا شاید ایک عام شخص کے لیے کسی کم عمر بچی یا بچے کا اغوا اور پھر زیادتی کے بعد قتل کا واقعہ عام ہو یا میڈیا کو کسی ایسے گھرانے میں جاکر قتل ہونے والی بچی کے ورثا سے جا کر ان کے زخم کریدنے سے شاید کوئی بلیٹن کی ریٹنگ وقتی طور پر مل بھی جائے، لیکن ان کی زندگی کو ملنے والا یہ روگ کہ ان کے گھر کی گڑیا کو کسی نے وحشی جانور کی مانند بھنبھوڑ ڈالا ہو، ان کی ادھ کھلی کلی کو کسی نے مسل ڈالا ہو یہ دکھ ان کے ساتھ لحد تک جائے گا۔
اگر اس انسانیت سوز ظلم سے کوئی بچہ یا بچی بچ بھی جائے تو آگے زندگی کیسے شروع کرے؟ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ آوارہ کتوں کی طرح کھلے گھومتے پھرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ نہ تو جرم ہے نہ ظلم کیوں کہ وہ قانون کی گرفت میں جو نہیں۔
مجھے ایک اور واقعہ بھی یاد ہے، ان دنوں میں نے براڈ کاسٹ میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا، 2013 میں خدا کی بستی میں مدرسے سے واپس گھر جانے کے لیے ایک گیارہ سالہ بچی جب گھر نہ پہنچی تو رات گئے اس بچی کو ڈھونڈنے کے بعد بچی کے اہلخانہ پولیس اسٹیشن پہنچے جہاں ان کی سنوائی کیا ہوتی الٹا سوال کیا گیا کہ لڑکی کا کوئی چکر تو نہیں؟ کسی معاملے میں تو نہیں تھی؟ چال چلن ٹھیک تھا؟
پولیس کا یہ برتاؤ غریب گھرانوں کے ساتھ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ آدھا کیس وہی نمٹ جائے، شکایت اور عرضی لے کر آنے والے اپنی بچی کچی عزت لے کر واپس لوٹ جائیں۔ کچھ روز بعد اس بچی کی بھی کسی ویرانے سے تشدد زدہ لاش مل گئی۔
یہ سارا واقعہ رپورٹر کو پتہ چلا اورجب کہانی کے تانے بانے ملے تو معلوم ہوا کہ بچی کے اہلخانہ تو پولیس کے پاس گئے تھے لیکن وہاں سے ملنے والی عزت افزائی سے وہ لوگ چپ کر کے بیٹھ چکے تھے اور پھر ایک دن لاش ملی اور وہ بچی منوں مٹی تلے دفن کردی گئی، یوں وہ گھرانہ دہرے عذاب سے گزرا اور اس بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والے پولیس کے مرہون منت ایک بار پھر بچ گئے۔
جہاں ایک طرف ایسے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں وہاں دوسری طرف قانون کے رکھوالوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ہے جس کے باعث ایسے واقعات پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے۔ اول تو ایسے جرائم رپورٹ ہوتے نہیں اور جو لوگ یہ رپورٹ کرواتے بھی ہیں وہ پہلے باہر اپنی عزت گنواتے ہیں باقی پولیس اسٹیشن میں۔ یوں ہر سال یہ کوائف اکھٹے کر کے ایک رپورٹ بنادی جاتی ہے اور مجرم کتنے پکڑے کتنوں کو سزا ہوئی اس کا کھاتہ خالی ہی رہ جاتا ہے۔
کہنے کو تو یہ "جنسی حملہ"ہے لیکن یہ حملہ جہاں کسی کے جسم کو چھلنی کرتا ہے وہیں اس گھرانے کے ہر فرد کی روح کو بھی گھایل کر دیتا ہے۔ نتیجہ کچھ نہیں نکلتا سوائے اس کے کہ بریکنگ چلتی ہے، اخبار کے کسی کونے میں چھوٹی سی خبر لگتی ہے اور دوسری جانب یہ ظلم کرنے والے مکروہ چہرے ایک لاش پھینک کر دوسرے شکار پر نکل پڑتے ہیں۔
٭شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کر دیا گیا ہے
سدرہ ڈار نیو نیوز میں رپورٹر ہیں اور ماحولیات، موسم، اور سماجی مسائل پر فیچر اسٹوریز پر کام کر رہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔