وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقے (فاٹا) میں اصلاحات کا عمل ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے دو سنگین مسائل نے آگھیرا، پہلا پاناما پیپر لیکس اور دوسرا وزیراعظم نواز شریف کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل (جو یو آئی ف) کے رہنما مولانا فضل رحمٰن کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کی سخت مخالفت۔
مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر فاٹا اصلاحات پر بحث کے لیے خاص طور پر بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اصلاحات کے قانون کی منظوری دی گئی تو وہ ’سب کچھ جام‘ کردیں گے۔
اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی نہ صرف رواج ایکٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ فاٹا کے خیبر پختونخوا سے انضمام کے حوالے سے کلیئر کٹ اور غیر مبہم حکومتی موقف کا مطالبہ کیا۔
اس کی وجہ سے فاٹا اصلاحات کا عمل مزید تاخیر کا شکار ہوجائے گا کیوں کہ 26 مئی کو وفاقی بجٹ آنے کی توقع ہے جس کے بعد جون اور جولائی میں بعد از بجٹ مباحثے ہوں گے جس کے بعد معاملہ اگست تک جائے گا اور اس وقت تک فاٹا اور کے پی کے کو ضم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے زیادہ وقت نہیں بچے گا کیوں کہ 2018 میں عام انتخابات بھی ہونے ہیں۔
باوجود اس کے کہ وزیراعظم نواز شریف کو متعدد سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ریفارم پیکج کا نفاذ کسی صورت بھی آسان ثابت نہیں ہوگا، اس کا نفاذ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور فاٹا کے انضمام کے پانچ سالہ منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے موثر مکینزم کی ضرورت ہوگی۔
اصلاحات کے نفاذ کے دوران سامنے آنے والے آئینی اور سیاسی چیلنجز سے بہتر طریقے سے نمٹ لیا گیا تو یہ قبائلی خطہ خوشحالی کی اس سطح پر پہنچنے کا اہل ہوجائے گا جہاں سے بتدریج وہ ملک کے دیگر حصوں کے برابر آسکے گا۔