پاکستان

'کم عمری کی شادی خواتین میں صحت کے مسائل پیدا کرتی ہے'

ماہرین صحت نےحکومت پر لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں پر پابندی لگانے پر زور دیا ہے تاکہ زچگی کے مسائل پر قابو پایا جاسکے

پشاور: ماہرینِ صحت نے حکومت پر لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں پر پابندی لگانے پر زور دیا ہے تاکہ خواتین میں پیدا ہونے والے زچگی کے مسائل پر قابو پایا جاسکے جو خواتین کے صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔

پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر میر عالم جان کا کہنا تھا کہ 23 مئی کو بین الاقوامی طور پر ’فیسٹولہ کے خاتمے‘ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ دن اس لیے منائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں میں بیداری پیدا کی جائے تاکہ وہ فیسٹولہ یا زچگی کے مسائل سے بچنے کیلئے حاملہ خواتین کی مناسب انداز میں دیکھ بحال کرسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر کیسز میں بچے یا تو پیدائش کے وقت ہلاک جاتے ہیں یا پیدائش کے ایک ہفتے میں ہی ہلاک ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کو شدید زخموں کو سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کے مثانے میں انفیکشن کا باعث ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: کم عمری میں شادی کیخلاف ترمیمی بل منظور

پروفیسر نے کہا کہ زچگی کے باعث پیدا ہونے والے فیسٹولہ سے متاثرہ خاتون تک رسائی انتہائی مشکل ہوتی ہے اور بیشتر غیر تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے پاس صحت سے متعلق خدمات تک رسائی محدود ہوتی ہے جس میں زچہ اور تولیدی صحت بھی شامل ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر فواد پرویز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صنعتی ممالک میں زچگی کے باعث پیدا ہونے والے فیسٹولہ کا عملی طور پر خاتمہ ہوچکا ہے جیسا کہ یہ اب قابل علاج اور بیشتر کیسز میں اسے سرجری کے ذریعے دور بھی کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم پاکستان میں سالانہ 3000 سے 5000 کیسز پیدا ہوتے ہیں۔

انھوں نے دائیوں کی مناسب تربیت پر زور دیا تاکہ وہ پیدائش کے عمل کو بہتر انداز میں سپروائز کر سکیں اور خواتین کی زندگیوں کو بچا لیں۔

انھوں ںے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام ہسپتالوں کو ضروری آلات فراہم کریں۔

اسی طرح ڈاکٹر یاسر نے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھانے پر زور دیا، خاص طور پر دیہی علاقوں میں تاکہ یہاں کے رہائشی اپنے مریضوں کو تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کے پاس لے کر جائیں اور اس حوالے سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ہر 7 سیکنڈ میں ایک کم عمر لڑکی کی شادی کردی جاتی ہے: رپورٹ

انھوں نے ناتجربہ کار اور کم تعلیم یافتہ دائیوں کے آپریشن کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں بیشتر خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو فیسٹولہ کے مریضوں کے علاج پر توجہ دینی چاہیے۔

یہ رپورٹ 23 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی